ضمنی الیکشن، اب کیا ہوگا؟
عرصہ قبل لڑکپن میں فلم دیکھی تھی ’’دلہن ایک رات کی‘‘۔ آج کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر سرسری نظر ڈالی تو وہ فلم اور حمزہ شہباز کی حکومت میں ایک مطابقت سی نظر آنے لگی۔ تاریخ میں تو صدیوں اور سالوں کی بھی کبھی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ چند دن اور چند ماہ کی تو قوموں کی زندگی میں حیثیت ہی نہیں ہے۔ شہبازشریف زیادہ سے زیادہ ایک سال وزیراعظم رہ سکیں گے۔ اس کا امکان بھی سردست نہیں ہے۔ نوائے وقت کے کالم نگار اور سیاسی تجزیہ نگار نصرت جاوید نے امید کا اظہار کیاہے شہباز شریف اپنی دستبرداری کی تقریر تیار کر رہے ہوں گے اور فوری طور پر اس کا اعلان کر دیں گے۔ اس حکومت کی جتنی مدت رہی ہے اس دوران انہوں نے بہت کچھ کر لیا مگربہت کچھ کرتے کرتے رہ بھی گئے۔ یہ مصرع ان پر منطبق ہوتا ہے ؎
حسرت تو ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
جن مقاصد کے لیے آئے تھے ،مقدمات کے خاتمے، نیب کے پرکاٹنے، ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو واپس لینے جیسے قانون مسترد کر دیئے۔ ای وی ایم ہوتی تو کیا ہوتا۔ اس سے بُرا رزلٹ پی ڈی ایم کے نکتہ نظر سے اور کیا آ سکتا تھا۔ مسلم لیگ ن کو اس قدر بڑی شکست کا سامنا آج تک کسی بھی الیکشن میں نہیں ہوا۔ بیس سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوا، حکومت پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ ن کی ،جسے پی ڈی ایم کی 10جماعتوں کے ساتھ عمران کا ساتھ چھوڑ کر پی ڈی ایم کے ساتھ مل جانے والے اتحادیوں کا ساتھ بھی حاصل تھا مگر الیکشن میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف چار سیٹیں حاصل کر سکی۔ایک سیٹ پنڈی والی پر دوبارہ گنتی کا امکان ہے۔راجہ صغیر صرف اُنچاس ووٹوں سے جیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو 16اور ایک پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ لاہور ن لیگ کا گڑھ اور گھر تھا۔ جہاں سے چار میں سے صرف ایک سیٹ اس کے حصے میں آئی۔ اب پی ٹی آئی کے پاس پنجاب میں 189ارکان ہیں اور حمزہ 22جولائی کو ہونے والے وزیراعلیٰ کے الیکشن سے باہر نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی اصولوں کا تقاضا تو ان کی طرف سے وزارت اعلیٰ سے فوری استعفیٰ ہونا ہے مگر اتنے اصول ہمارے ہاں سیاست میں کم کم ہی کارفرما رہے ہیں۔ اصولوں کی بات کریں تو وہ کچھ نہ ہوتا جو پنجاب میں حکومت سازی کے لیے ہوا۔ اس کالم کی اشاعت تک پاکستان کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ حمزہ شہباز اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کی جا سکتی تھی مگر مریم نواز کے اس بیان نے حکومتی مشینری کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے کہ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔مریم نواز نے مزید کہا کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ دل بڑا کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ انشاء اللہ خیر ہو گی۔
پنجاب میں ہونے والے یہ ضمنی انتخابات عمران خان اور نوازشریف کے بیانیے کی جنگ تھی۔ نوازشریف نے گو کہ یہ کہا ہے کہ مشکل فیصلوں کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ مشکل فیصلے کیوں اور کس کے کہنے پر کیے؟۔ پٹرول 100روپے لیٹر مہنگا کرکے 18روپے سستا کیا اور کریڈٹ یوں لیا کہ جیسے کشمیر فتح کر لیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو بیانیے سے یوٹرن کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم رہتے تو ضمنی الیکشن کی نوبت ہی نہ آتی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت نہ بن پاتی ۔ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو اس قدر دھچکا نہ لگتا کہ مسلم لیگ ن کی سیاست میں ایساڈینٹ پڑ گیا جس کی مرمت سرِدست ممکن نہیں ہے۔انتخابات کو روز ادارے غیر جانبدار نظر آئے۔البتہ الیکشن سے قبل حکومتی مشینری سرگرم نظر آئی ۔پی ٹی آئی ایس وائی زیڈ کی بات کرتی رہی۔الیکشن کے روز پی ٹی آئی کے خلاف اداراتی توپیں خاموش نظر آئیں،جس سے اداروں کے وقارکی بحالی میں پیشرفت ہورہی ہے۔
زین قریشی اور نعیم کے مابین ملتان میں سخت مقابلہ تھا۔ نعیم نے ہارنے کے بعد زین قریشی کو ان کیساتھ ملاقات کرکے مبارک باد دی۔ مسلم لیگ نے کے کچھ لیڈران نے بھی پی ٹی آئی کو اس جیت پر مبارک بادی دی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے اس فتح پر متکبرانہ رویے کا اظہار نہیں کیا گیا ۔ عمران خان نے تو فاتحانہ تقریر بھی نہیں کی۔ سیاستدانوں کے لیے ملتان کے نوجوان نعیم کا رویہ قابل تقلید ہونا چاہیے۔
اب مجھے سیاست میں ایک نئی صف بندی نظر آ رہی ہے۔ بلاول بھٹو اور ان کے سیاست میں ماہر اور شاطر والد آصف علی زرداری ایسے گھوڑے سے اتر آئیں گے جو ریس کے اختتام پر بھی نہ جا سکے۔ وہ سولوفلائٹ کی کوشش کریں گے۔آج سے پنجاب میں تبدیلیوں کا آغاز ہوجائے گا۔پنجاب میں ہونے والی تبدیلی کے اثرات مرکز پر بھی مرتب ہونگے اور معاملات الیکشن کی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔میری نظر سے ایک ٹویٹ گزرا جس میں کہا گہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے منحرف ارکان اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے بیانیے سے بھاری تعداد میں ووٹ حاصل کیے ہیں۔ عمران خان کو وفاق سے ہٹانے پر پنجاب بھی اُن کے ہاتھ سے چلا گیا ہے۔