عمران خا ن کا بیانیہ اور مریم نواز کی تڑیاں
ایک طرف عمران خان صاحب ضمنی الیکشن میں اپنی ان تھک انتخابی مہم میں اینٹی امریکی بیانیے کو کیش کرانے کی کوشش کرتے تو ادھر محترمہ مریم بی بی نون لیگ کی انتخابی مہم میں مردانہ وار مفابلہ کر تے ہوے تڑیاں تک لگانا شروح کر دی ہیں جس سے ضمنی الیکشن کا ماحول تلخ جا رہا۔ بے شک پی ٹی تازہ ترین نتائج کے آ نے تک پی ٹی آئی ضمنی الیکشن جیت چکی ہے اور نون لیگ کو ان کی مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کے فوائد کی بجائے بطاہر نقصان ہی ہوا ہے یہ الگ بات کہ عمران کا انٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اور قوم کو بظاہر امریکی غلامی
سے نجات کا نعرہ بھی اپنا اثر دکھا رہا ہے۔عمران خان کا فوری انتخاب کا نعرہ ان کا بے شک جمہوری حق اور آئینی حق ہے لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ اگر اب وہ اقتدار میں آ گئے تو وہ کونسی نئی تبدیلیاں اور اہم کام کریں گے جو انکے گزشتہ دور میں ان سے نہیں ہو سکے تھے اور اب اس سازش کا کس طرح سد باب کرینگے جس کا شکار وہ اپنے آپ کو قرار دے رہے ہیں۔وہ کونسا انقلابی ایجنڈا وہ بروے کار لائیںگے اور کس طرح الیکٹیبلز کی سیاست سے جان چھڑائیں گے ورنہ وہی ایک سو خاندان نام بدل کر پارلیمان میں پہنچ جائں گے ۔ عمران خان اگر الیکشن سے پہلے ان الیکٹبلز کو اپنی پارٹی سے نکالنے میں یا ان کو ٹکٹ نہ دے کر اپنی پارٹی کی حقیقی عوامی ہونے کا ثبوت دے سکیں گے۔اس ایک قدم سے وہ بے شک ضمنی الیکشن ہو سکتا ہے کچھ سیٹوں سے ہار جاتے لیکن لانگ رن میں انکے بارے میں انکے نعروں کے خلوص کے بارے میں عوام ان پر زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیتے اور وہ خود بھی اپنی گرفت پارٹی پر زیادہ مضبوط کرنے میں اور لوٹوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتے۔ اس کیلئے اگر اب بھی وہ فوری اقدام اور فوری فائدے کیلئے نئے ایلیکٹبلز آ انحصار کرتے رہے تو نہ ان کی حقیقی پاپولیریٹی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی ایک روائتی جماعت کی حیثیت تک محدود رہیں گے یا وہ صدارتی نظام پر ملکی سطح پر ریفرنڈم کا حتمی اعلان کریںتا کہ ان لوٹوں یا الیکٹیبلز سے جان چھڑائی جا سکے۔یا مینار پاکستان پر اس ملک کی تقدیر ہمیشہ کے بدلنے کیلئے عوام کے تاریخی اجتماع سے نیا سوشل کنٹریکٹ کر کے تاریخی کام کریں۔اس کیلئے عمران خان کو اپنے ذاتی حصار میں میں توتو سے باہر نکل کر عمل کرنا ہوگا۔ اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس حقیقی عوامی نمائندہ نظام کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دینا ہو گا۔ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں پچھلے بیس سال سے عوامی لیگ کی حسینہ واجد اقتدار میں ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی ایک وزیراعظم کا پچھلے ستر سالوں میںایک پورا ٹینور بھی پورا نہ ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ طاہرالقادری ٹھیک ہی کہتا تھا کہ اس جاگیر وسرمایہ داروں کے بل بوتے پر قائم نظام کے ہوتے ہوئے عوامی طاقت اور حاکمیت کبھی نہ آسکتی جبکہ مریم بی بی تو صرف سٹاپ گیپ نظام کی بقا کیلئے فتنہ خان کے نعرے لگوارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ مریم کا مقصد صرف عمران خان سے اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کا دوبارہ حصول ہے کیونکہ عمران خان نے انکے والد اور خاندان کو کچھ دیر جیل میں دھکیلا تھا،۔ ویسے بھی وہ کسی بڑے سیاسی ویژن کی حامل نظر نہیں آتیں نہ ان کا اتنا مطالعہ اور نہ ان محترمہ کا اتنا دور اندیشی پر مبنی کوئی سیاسی فلسفہ ہو سکتا ہے، صرف انتخابات میں جیت اور اپنے خاندان کو اقتدار کی واپسی ان کے مشن کی انتہا لگتی ہے۔ میاں نواز شریف بھی اتنے سیاسی تجربے کے بادجود کسی بڑے سیاسی ویزن یا انقلابی تبدیلی کو آج تک پاکستان میں رائج کرنے کے دلی طلبگار نہ ہوے۔ یہی حال شہباز شریف کا ہے پی پی پی کا ماضی میں آمروں کیخلاف جدوجہد دیکھتے ہوئے یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ کل کلاں اگر ان کا پی ٹی آئی سے کچھ معاملوں پر نظریاتی بعد کی وجہ سے اگر الحاق ہو جائے تو پاکستان اور چھوٹے صوبوں اور جمہوریت کیلئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول اور بڑھکیں لگانے سے ملک مستقل بنیادوںمستحکم نہیں ہو سکتے۔ آج تو محترمہ مریم بھی ،،سٹیٹسکو،، کی حامی قوتوں کو تڑی نہیں لگا رہیں جبکہ اقتدار کے دوران جناب عمران خان بھی انہی کے ترجمان بنے رہے۔کیا ان انتخابات میں ہونیوالی تقریروں اور جلسوں جلوسوں سے عوام کے جذبات کو باہر نکلنے یا کتھارسز کا سبب بنتی ہیں جس سے طرح عوامی جذبات ماند پڑھ جاتے اور عوامی تحریک کی راہ مسدود ہوتی ہے کس قدر ستم ظریفی ہے کہ مریم بی بی انتخابی حلقوں کے عوامی مسائل اور ان کے حل کی بات نہیں کر رہی صرف اینٹی عمران نعروں کو کیش کروا رہی ہیں اور عمران خان اینٹی امریکا نعرے اینٹی کرپشن نعرے کو کیش کرانے میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہیں۔ آلو پیاز کے ریٹوں سے بقول انکے ان کا اتنا لینا دینا نہیں ۔ ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعدعمران خان کو اقتدار کے حصول کی جلدی کی بجائے جمہوریت کی حقیقی آزادی ،خومختاری اور اداروں کو مزید زنگ آلود اور کرپٹ ہونے سے بچانے کیلئے قائدانہ رول اداکرنا ہو گا ۔