قومی وسائل اور احتساب
بدقسمتی سے ہماری قومی سیاست میں اقربا پروری ، دھونس دھاندلی، سیاسی بونوں، نوٹوں اورلوٹوں کاسیلاب امڈآیا ہے۔سیاسی بونوں نے ریاست کے مقابلے میں منافقانہ سیاست اورنجی تجارت کواہمیت دے رکھی ہے جس سے کرپشن میں جدت اور شدت آئی ۔پاکستان کے قومی وسائل مسلسل چوری اورملی بھگت سے بیرون ملک منتقل جبکہ اداروں میں سیاستدانوں کے وفادار غلام بھرتی ہوتے رہے۔چندخاندان معاشی طورپر زمین سے آسمان پرچلے گئے جبکہ قومی معیشت آئی ایم ایف نامی وینٹی لیٹر پر چلی گئی۔سودی نظام نے بھی ہماری معیشت کی نابودی میں کلیدی کرداراداکیا۔ قائد کے فرمان ،"کام ،کام اور کام "کی روشنی میں وفاقی محکموں میں دو چھٹیوں کاسلسلہ فوری ختم کیا جائے۔ وفاقی محکموں کے آفیسرز اور اہلکاروں کو صوبائی محکموں کے مقابلے میں زیادہ تنخوا ہ دی جاتی ہے لہٰذا جو پوری تنخواہیں وصول کرتے ہیں ان سے پوراکام لیا جائے کیونکہ چوری اورکام چوری دونوں قابل گرفت ہیں۔کرپشن کے سدباب کیلئے چین کی طر ح پاکستان میں بھی سزائے موت مقرر کی جائے۔کرپشن کاسیلاب یقینا نیب کے سوا کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کیلئے نیب کو آزاد ،خودمختار اوربااختیار بناناہوگا۔نیب کے ہوتے ہوئے ہمارے ہاں کرپشن کاسورج سوانیزے پر ہے تو تصور کریں اگر نیب کا ادارہ نہ ہوتا تو پھر کیا حال ہوتا لہذاجو عناصر قومی وسائل ہڑپ کرتے ہیں ان کی توندوں اورتجوریوں تک رسائی جبکہ قومی چوروں کے چہروں سے نقاب کشائی اور ان کی رسوائی کیلئے نیب کواس کے اختیارات واپس کرنا ہوں گے۔ جو چور ملک اور اس کی نحیف معیشت پر رحم نہیں کرتے وہ ہرگز قابل رحم نہیں ہوسکتے ،انکے ساتھ نرم رویہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ نیب بنانے والے آج اپنی چوریوں کے قصے زبان زدعام آنے پر اس ادارے سے بیزار ہیں ۔ شہزادسلیم نے اپنے فرض منصبی کی بااحسن بجاآوری کے دوران ریاست کی محبت میں دشمنی مول لی۔ انہوں نے نیب کیلئے جو خدمات انجام دیں اس کیلئے وہ بجا طور پرانعام کے مستحق تھے لیکن آج انہیں انتقام کاسامنا ہے۔ ڈی جی نیب شہزادسلیم کو لاہور سے اسلام آباد ٹرانسفر کردیا گیا ہے، انہیں نیب کیلئے کسی خوددار اور ایماندار شخص کی ضرورت نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جوزندہ لاش ہو اور چوروں کی وارداتوں پرخاموش رہے۔ شہزاد سلیم کے خلاف جو میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا وہ تو راقم کے نزدیک بیک فائر کرگیا۔ ماضی میں بھی مخالفین کامیڈیا ٹرائل کرنے کیلئے مخصوص اورمتنازعہ خواتین کواستعمال کیاجاتا رہا ہے۔ جو شریف ہوتے ہیں وہ اپنے دشمن پروار کرنے کیلئے گمراہ خواتین کاکندھا استعمال نہیں کرتے۔ شہزاد سلیم نے جو سوالات اٹھائے ہیں قوم ان کے تسلی بخش جوابات کی منتظر ہے۔نیب بظاہر خودمختار ادارہ ہے لیکن ہر دور میں اس کے پیروں میں بیڑیاں ہوا کرتی تھیں تاہم اس بار اتحادیوں نے اپنے اپنے آئینی عہدوں کی طاقت سے اس ادارے کے’’ پر‘‘اور’’پیر‘‘دونوں کاٹ دیے ہیں ۔نیب قوانین میں متنازعہ ترامیم ہونے سے قبل کرپٹ عناصر سمیت ان کے وظیفہ خواروں کی چیخوں سے نیب کی کارکردگی کا پتہ چلتا تھا۔ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد نیب حکام کیخلاف انتقام نے متحدہ حکومت کے مذموم عزائم کو پوری طرح آشکار کر دیا ہے ۔پاکستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں چور الٹا ایک جتھے کی صورت میں محتسب کا محاصرہ ، محاسبہ کرسکتے ہیں۔نیب کے ناقدین اور حاسدین کی فہرست بہت طویل ہے۔ ڈی جی نیب شہزادسلیم کو لاہور سے اسلام آباد نیب کے ہیڈ کوارٹر میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ انہیں تقریبا دو اڑھائی ماہ قبل دوبارہ لاہور میں تعینات کیا گیا تھا لیکن اب شہزادسلیم کا دوبارہ اسلام آباد چلے جانا یقینا نیب اور احتساب کے حامی ہم وطنوں کیلئے ایک بڑا سرپرائز ہے۔ جو زندہ ضمیر آفیسرز ارباب اقتدار کی گڈ بک میں نہیں ہوتے وہ تاریخ کی کتابوں کا جلی عنوان ہوا کرتے ہیں۔ لاہور سے اسلام آباد ٹرانسفر ہونیوالے سابقہ ڈی جی نیب نے لاہور میں اپنے پانچ سالہ شاندار دور میں2017 ء سے 2021 ء تک مجموعی طور پر 111 ارب روپے مالیت کی ریکوری ممکن بنائی۔ اس ریکوری کے مقابل نیب لاہور نے دیگر ادوار میں 1999 ء سے2016 ء کے دوران کل17ارب 70 کروڑ کی ریکوری کی تھی۔ شہزاد سلیم نے بطور ڈی جی نیب ان ڈائریکٹ ریکوری میں مجموعی طور پر سالانہ 1087 فیصد اضافہ کیساتھ کل 80ارب 85کروڑ سے زائد کی ریکوری کی تھی۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی شاندار کامیابی پر سیاسی پنڈت ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں تازہ اعدادوشمار کی روشنی میں چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔انکی انسانیت کیلئے خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔