• news

ہمارے معاشرے میں مذہبی تعصب

ھمارے معاشرے میں دیندار ہونے کا الگ ہی مزاج ہے۔ ایک پہلو یہ ہے جو عمومی طور پہ ہر دوسرے دیندار شخص میں پایا جاتا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ بس وہ ہی نیک ہے اور جتنا علم اس کے پاس ہے اس میں وہ عقِل کل ہے۔وہ کسی صورت بھی خود کی اصلاح اور تصیح کرنے کو تیار نہیں۔دوسرا اگر وہ پانچ وقت کا نمازی ہے اور قران پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے اس کے اندر عاجزی پیدا ہونے کی بجائے تکبر آجاتا ہے۔ اب وہ ہر اس شخص سے خود کو بہتر سمجھتا ہے جو دینی لحظ سے اس سے کمزور یا با عمل نہیں ہے۔ آپ کو فکر ہونے چاہیے اگلے کے عمل کی ،مگر وہ فکر تنقید اور طنز کی صورت نہ ہو۔ آپ بہت مخلص بھی ہیں اور گھل رہے ہیں اگلے کی ہدایت کے لیے تو ایسے شخص کے کے لیے دعا کیجیے نہ کہ محفل میں اور ہر جگہ اس کو اپنی تبلیغ کا حصہ بنا لیں اور وہ آپ سے ڈرتا چپھتا پھرے۔ یقین کیجیے کہ کسی کو تبلیغ دینے کے لیے سب سے پہلے باعمل ، صابر اور مخلص ہونا شرط ہے۔ اگر اپنے علم سے اپنا رعب جمانا ہے یا دہونس ڈالنی ہے تو آپ کا عمل کسی کو بدک بھی سکتا ہے اور کسی کو بھی دین سے متنفر کرنا آپ کے روزے نماز اور باقی عمل کو ضایع کرنے کے لیے کافی ہے۔ نیم حکیم خطرہ جان۔ آپ نے دین کے دو لفظ سیکھ لیے اور لگے دوسروں کو طنز کرنے اور حاوی ہونے کی اس کوشش میں جو اگلا شخص آپ سے متنفر ہوگا اس کا نقصان کا وبال آپ پہ۔ اپنی عمل سے متاثر کیجیے خاص کر جب آپ کسی آزمایش میں ہوں یا با اختیار ہوں۔ ایک جاننے والی نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک عرصہ نماز نہیں پڑھی اور اس کی وجہ اس کی تہجد گزار ساس اور شوہر ہیں جنھوں نے اس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ اس کے خیال میں اگر دین دار لوگ ایسے بد اخلاق نہیں تو مجھے نہیں اس راہ پہ جنہوں چلنا ( اللہ نے بعد میں اپنا کرم کیا اور توبہ کی توفیق دی) مگر آپ سوچیے کیا آپ کسی کو دین سے متنفر تو نہیں کر رہے غور کریں دوسرے مذہب کے لوگ یہ تو نہیں سوچتے کے ایسے ہوکے باز مسلمان ہونے سے ہم کافر بھلے ؟ اگر ہمیں دیکھ کر کوئی یہ سوچتا ہے کہ تو عبرت کا مقام ہے۔آپ نے داڑہی رکھی ہے یا پردہ کیا ہے یہ مانا کہ آپ کا ذاتی عمل ہے مگر یہ بھی یاد رکھیے کہ اب آپ داعی ہیں۔ اب آپ دین اور اسلام کی نمایندگی کررہے ہیں۔ اب آپ پہ دوہری ذمہ داری ہے اپنے عمل کی بھی اور دین کی نمائندگی کی بھی۔ یاد رکھیے کی دین کی اوٹ میں چھپ کر اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر جو عمل بھی کیا جاے گا اس کا دوہرا عذاب ۔کچھ عرصے سے مجھے یہ محسوس ہوتا ھے جو جتنا عبادت گزار ہے وہ اپنے معاملات میں اور اخلاق میں اعلی کیوں نہیں ہمارا بھی یہ رویہ شائد درست نہیں کہ ہم ہر باریش اور با حجاب کو دین دار سمجھ لیتے ہیں۔ یا مسلمانوں کو جانچنے کا معیار بنا بیٹھیں۔ مسلمان وہ ہے جو قرآن پہ عمل کرنے والا ہے۔ داعی وہ ہے جو خود باعمل ہے۔میں اپنے بیٹے کو نماز کا تب بول سکتی ہوں جب خود نماز پڑھوں۔ خود سوچئیے دن میں چھتیس جھوٹ بول کر آپ کیسے کسی کو کہہ سکتے ہیں جھوٹ مت بولو۔ اسی طرح باحجاب ہونا یا باریش ہونا دین دار ہونے کی علامت نہیں۔ ہوسکتا ھے کسی نے ابھی شروع ہی کیا ہو۔ پہلے مرحلے پہ ہو۔ اور آپ توقع کرلیں کہ اس سے بہترین نتائج کی۔ اس کی آگے بڑھنے میں مددکیجیے نہ کہ اس کا حوصلہ پست۔ اس کا ماضی یاد کرا کے اس کی دل آزاری نہ کیجیے۔دین کو کھیل نہ بنائیے آپ سے آپ کے ہر عمل کی پوچھ ہوگئی۔عوام الناس کو بھی دیکھنا چاہئیے کہ ہر تسبیح پڑھنے والا ضروری نہیں کہ معاملات اور کاروبار بھی دیانت سے کر تا ہو۔ آخری بات ہر باحجاب اور باریش ریا کار زاہد کو اسلام کا چہرہ مت سمجھیے۔

ای پیپر-دی نیشن