تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے
مکرمی! تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ اگر کوئی ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنائے کیونکہ کسی بھی ملک کی حالت خواہ سیاسی ہو یا معاشرتی، تعلیم پر ہی منحصر ہے۔ جو ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ان میں معیارِ تعلیم اعلیٰ درجے کا ہے۔ بوگس تعلیمی نظام سے ملک کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں نہ ہو گا۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کی حالت اس وقت قابلِ رحم ہے اس تعلیمی نظام کے ذریعے مستقبل کے معمار تو پیدا نہیں ہوں گے البتہ پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہو گا۔ اس کے ذمہ دار ہمارے اساتذہ یا تعلیمی ادارے نہیں بلکہ بار بار تبدیل ہونے والی تعلیمی پالیسیاں ہیں طلبہ کی ذہنی واخلاقی تربیت کرنے کی بجائے انھیں صرف نصاب کو رٹنے میں لگا دیا جاتا ہے جس کے باعث تعلیم کا اصل مقصد تو کوسوں دور رہ جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجوہ تعلیم کو سیاست کے ساتھ منسلک کرنا، ناقص تعلیمی منصوبہ بندی اور تعلیم کے لیے قلیل رقم مختص کرنا ہے جس کے سبب تعلیمی اخراجات ہی نہیں پورے ہو پاتے اور نصاب میں ایسے مضامین شامل کرنا جن کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ ایسے مضامین کو پڑھنے سے طالب علموں کا ناصرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ ان کے تعلیمی رجحان میں بھی کمی آتی ہے۔ مزید برآں، تعلیمی اداروں میں طالب علموں کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے جس کے سبب تعلیم کا حصول کسی چیلنج سے کم نہیں۔ فرنیچر کا تو اللہ ہی حافظ ہے اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے اور بعض اداروں میں تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ کئی عوامل ہیں جو براہِ راست تعلیم پر اثر انداز ہوتے ہیں اس سب کے باوجود اساتذہ اور طلبہ کو ہی نااہل سمجھا جاتا ہے اور دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں مثبت تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ علم دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی تاکہ مستقبل کے معمار پیدا ہو سکیں نہ کہ پڑھے لکھے جاہل۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو سند کے نام پر کاغذی ٹکڑے دینے کے ساتھ بہتر تعلیم اور تربیت بھی دے سکیں۔ (باسط افضل، ایم اے او کالج، لاہور)