نوعمر لڑکوں کی تربیت پر دھیان دیجئے
ایک دور تھا کہ جب لڑکے ابا جی کے موڈ آف ہونے اور ان کی ڈانٹ کے خوف سے بہت ساری برائیوں میں پڑنے سے بچ جاتے تھے۔ گھر میں رات گئے آنا، حد سے زیادہ کرکٹ کھیلنا، سکول تاخیر سے پہنچنا، برے دوستوں کی صبحت، رزلٹ کارڈ میں خراب کارکردگی وغیرہ یہ وہ وجوہات تھیں جن پر ابا جی کی صلواتیں خوب سننے کو ملتی تھیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ معاشرے میں بڑے بڑے ہیروں کو تراشنے میں والدین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ صحتمند معاشرے کی تشکیل میں ان والدین کی ٹریننگ نے انقلاب برپا کیا جن کی رائے تھی کہ لڑکوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی لڑکیوں کی۔ قارئین ہر دور کے اپنے مسائل اور حالات ہوتے ہیں لیکن 2022 کی تربیت اور آج سے 30 سال قبل کی تربیت میں نمایاں فرق آ چکا ہے۔ بچوں بالخصوص لڑکوں کی اخلاقی و جسمانی لحاظ سے پرورش کرنا اس قدر مشکل ہو چکا ہے گویا کہ لنکا ڈھانے کے مترادف ہو۔ عصر حاضر میں الیکڑانک گیجٹس اور درپیش چیلنجز نے والدین کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ گیجٹس کے استعمال سے لڑکے قبل از وقت بلوغت کے بارڈر کو عبور کرتے جا رہے ہیں۔ان میں بچگانہ پن کہیں نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹین ایج لڑکے خود سر اور ضدی ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ والدین انہیں کیا تلقین کر رہے ہیں۔ پھر جب والدین سختی کرتے ہیں، پٹائی کرتے ہیں تو نتیجہ بغاوت کی صورت میں بھیانک ہوتا ہے۔ یاد رکھئیے گا کہ ٹین ایج لڑکوں کو مارنا انکی شخصیت کے منافی ہے۔ بات منوانے کیلئے مار کا سہارا لینے سے بنیادی طور پر بڑے بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ مار کٹائی کرنے والے والدین اس فہرست میں آتے ہیں جو احساسِ کمتری یا برتری کے عنصر کو دماغ پر سوار رکھتے ہیں۔جن والدین کو یہ ڈر لاحق ہوتا ہے کہ انکے بچے برادری کے بچوں یا پڑوسی کے بچوں سے پیچھے رہ جائیں گے وہ بچوں کی پٹائی زیادہ کرتے ہیں۔ بچوں کو مارے بغیر ان کے رویوں کو تبدیل کریں۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ بچے جب بات نہ مانیں تو فطری جذبہ ہے۔ غصہ تو ضرور آئے گا۔ لہٰذا یہ کم کیسے کریں۔
بہترین حل یہ ہو سکتا ہے کہ غصے کا علاج غصے سے نہ کیا جائے۔ جب تک معاف کرنا نہیں سیکھیں گے، نرمی نہیں برتیں گے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سنگین سرزنش ہوگی تو اولاد باغی ہو جائیگی۔ بچوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو تنقید کی بجائے تعریف و توصیف کرکے دیکھیں۔ بچوں میں خود اعتمادی آئیگی۔ معمولی غلطیوں کو پوائنٹ کرنے کی بجائے نظر انداز کریں حیرت انگیز طور پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اچھے ٹارگٹ سیٹ کرینگے۔ دراصل ہم لوگ نکتہ چینی کی انتہا کر دیتے ہیں اور جو کام نوٹ کرنیوالے ہوتے ہیں ان پر توجہ نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر بچہ کن سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کر رہا یے۔نیند کتنی پوری ہو رہی ہے۔ٹی وی کی بجائے انٹرنیٹ پر کن ویڈیوز کی طرف رحجان ہے۔ بچے کے سیکھنے کی قابلیت کتنی ہے اور رٹا سسٹم کے نرغے میں کتنا گھرا ہوا ہے۔ کسی قسم کی ہراسگی و دباؤ کا سامنا تو نہیں وغیرہ۔ خاص طور پر ٹین ایج لڑکے جب کسی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو ان میں منفی خیالات کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بہت سارے منفی خیالات کے باعث جب وہ تکلیف سے گزرتے ہیں تو بچے فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انکی حقیقی پریشانی کیا ہے؟جب والد ہی بچے کی ڈھارس نہ بندھائے تو اس میں غصہ، نفرت، عدم تحفظ جیسے احساسات جنم لے لیتے ہیں جو ٹین ایج لڑکوں کو ایک مستقیم اور مثبت سوچ سے کوسوں دور کر دیتے ہیں۔ دراصل اس قسم رویے کو ہم ڈیپریشن کا نام دے سکتے ہیں۔ حالانکہ مستقبل کے معماروں کو مستقل بنیادوں پر ایسے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے شعور و آگاہی دینا والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہیں نصیحت کی جائے کہ پریشان ہونا مسئلے کا حل نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے ’’جہد مسلسل‘‘ کی جائے۔ اب ذہنوں میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ’’جہد مسلسل‘‘ کی طرف ترغیب کیسے دلوائی جائے۔ آسان ترین حل کہ انہیں ٹیکنیکل، بامقصد اور تعمیری کاموں میں مگن رکھا جائے۔ نسل نو کی بیراہ روی کا اہم ترین سبب فراغت ہے۔ ٹین ایج لڑکوں کو جب صحت مند سرگرمیاں، تفریح کے مواقع نہیں ملتے تو وہ ناامید و مایوس ہو کر لڑکپن میں نفسانی خواہشات و شیطانی وساوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر جب والدین ان کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ خبردار ان کاموں سے باز آ جاؤ تو نتیجتاً لڑکے جارحانہ اور متشدد ہو جاتے ہیں۔والدین کو بصیرت سے کام لیتے ہوئے ایسے حالات میں سازگار ماحول کا انتظار کرنا چاہیے۔بہتر ہے انہیں کچھ دیر بعد سمجھائیں۔ جتنا سمجھانے کی کوشش کریں گے بات بگڑتی جائے گی کیونکہ ضدی بچے کبھی غصے کی حالت میں ناصح کی بات کو قبول نہیں کرتے۔دیکھا گیا ہے کہ ذرا وقت گزرنے پر وہ والدین سے خود معافی مانگنے آتے ہیں۔قارئین پاکستانی معاشرے میں اس وقت اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں جزا و سزا کا ایک باقاعدہ سسٹم موجود نہیں ہے۔ عجب کلچر ہے کہ کبھی پذیرائی پر بہت بے عزتی کی جاتی ہے تو کبھی سزا پر بات کو رائی کے برابر سمجھ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ اچھی تربیت کے حامل مرد نہ صرف اچھے بیٹے، شوہر، بھائی ثابت ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کے اچھے شہری بنتے ہیں۔