سرزمین ِ جھنگ کا روشن ستارہ
رائے ریاض حسین سے تعلق تو بہت پرانا ہے۔ جب وہ ایوان اقتدار کی راہداریوں میں دکھائی دیتے تھے تو کبھی کبھی ہمارا گزر بھی وہاں سے ہوتا رہا اور ان سے شناسائی کا تعلق برقرار رہا لیکن ان کی خود نوشت ’’رائے عامہ‘‘ کے انوکھے عنوان سے شائع ہوئی اور نظر سے گزری تو یہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں کہ رائے ریاض حسین کی شخصیت کے اس پہلو سے ہم ناواقف ہی رہے۔ انہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے تاریخی واقعات کو سپرد قلم کرکے نہ صرف اس ملک اور قوم پر احسان عظیم کیا ہے بلکہ خود کو قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، طارق محمود، بریگیڈیئر صدیق سالک اور مختار مسعود جیسے نامور اہل قلم ، بیورو کریٹس کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کرلیا ہے۔
رائے ریاض حسین کا تعلق جھنگ کی مردم خیز سر زمین سے ہے۔ جھنگ نے بے شمار صحافی، ادیب ، شاعر اور افسانہ نگار پیدا کئے ہیں۔ اب ان نامور شخصیتوں میں جنہوں نے جھنگ میں پیدا ہو کر مختلف شعبوں میں اپنا نام اور کام منوایا۔ رائے ریاض حسین کے اسم گرامی کا اضافہ ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح ہے ورنہ ہمارے ملک میں تو ایک ملک ریاض حسین ہی ہیں جن کی دولت کا ڈنکا بجتا ہے۔ اگرچہ ان دونوں اصحاب میں ایک قدر مشترک ضرور ہے کہ دونوں نے مشکلات اور مصائب کے روح فرسا دن بھی گزارے اور پھر اپنی محنت اور صلاحیت کے بل پر اہل وطن سے خوب خوب دادِ تحسین وصول کی۔ اس لحاظ سے ریاض حسین ایک بابرکت نام ثابت ہوا جس کی کرنیں اب پورے معاشرے کو روشن کررہی ہیں۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے رائے ریاض حسین کی شخصیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔
رائے ریاض حسین کا تعلق جھنگ کے ایک راجپوت زمیندار گھرانے سے ہے۔ انہوں نے ایک دیانت دار اور بااصول والد اور عبادت گزار اور سلیقہ شعار والدہ کے سائے میں پرورش پائی۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے تنہا یہ ذمہ داری نبھائی۔ پانچوں بھائیوں کو ان کی آغوش نے کندن بنا دیا۔ رائے صاحب مقابلے کے امتحان کے ذریعے سرکاری ملازمت میں پہنچے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ دوسرے چار بھائیوں میں دو ڈاکٹر ہیں اور دو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ انہیں پاکستان کے چار وزرائے اعظم کے ساتھ (بطور پریس سیکرٹری) کام کرنے کا موقع ملا۔
ایوان اقتدار میں بیٹھ کر انہوں نے وہ کچھ دیکھا اور وہ کچھ سنا جو بہت کم لوگ دیکھ اور سن پاتے ہیں۔ اب انہوں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کو الفاظ دے دیئے ہیں۔ ان کے کسی تا ٔثر یا اس سے اخذ کردہ نتیجے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے بیان کردہ واقعات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر وہ کچھ بیان کر دیا ہے جو انہوں نے دیکھا جو ان کی سمجھ میں آیا یا دوسروں کو کہتے یا کرتے ہوئے پایا۔ یہ راز تو شاید پہلی مرتبہ فاش ہو رہا ہے کہ کیپٹن صفدر وزیراعظم نواز شریف کے دل میں اس طرح کیسے سمائے کہ ان کی عزیز از جان صاحبزادی کے رفیق حیات بن گئے۔ رائے صاحب کے ہاں دھماکے بھی ہیں اور ذائقے بھی۔ مجھے امید ہے کہ ان کی یہ تصنیف پاکستانی سیاست اور اس کے مختلف کرداروں کو سمجھنے میں مدد دے گی اور ان کو بھی اس صف میں کھڑا کردے گی جس میں قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود اور الطاف گوہر جیسے مینار کھڑے ہیں۔
شامی صاحب کے اس تبصرے کے بعد کتاب اور صاحب کتاب کے متعلق کچھ اور کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں۔کتاب کے مضامین سے کئی تاریخی واقعات اس کالم میں شامل کئے جاسکتے ہیں مگر اس خیال سے کہ قارئین میں اس کتاب کے مطالعہ کے لئے تشنگی اور تجسس برقرار رہیں اس مشق سے گریز کیا جارہا ہے۔
یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخی دستاویز ہے جس ملک میں رائے عامہ کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ رائے ریاض حسین نے اپنے نام کے پہلے حصے کے ساتھ اسے منسلک کرکے اس قابل بنا دیا ہے کہ اصحاب قلب و نظر اس کے مطالعہ سے اپنی آنکھوں میں ٹھنڈک اور اپنے نقطہ نظر میں کشادگی کے احساس سے بہرہ ور ہوں ۔