ڈرٹی پالیٹکس
وطن عزیز میں پچھلے چار ماہ سے عجب تماشہ لگا ہوا ہے۔ ہر کوئی اقتدار پر قبضہ کیلئے ہر حد پار کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ پورا ملک تھیٹر بنا ہوا ہے لوگوں نے تفریح طبع کیلئے سٹیج ڈرامے دیکھنا بند کر دیے ہیں کیونکہ انھیں ملک کے معزز ترین لوگ ایسے ایسے ڈرامے کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انکے سامنے بڑے سے بڑا اداکار بھی ہیچ لگتا ہے پورے ملک میں سیاسی تھیٹر پر سیاسی اداکار نان سٹاپ ایکٹنگ کر رہے ہیں ان ڈرامے بازیوں اور اقتدار کی چھینا جھپٹی نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے اور اس ملک کے والی وارث ہونے کے دعوے داروں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب جان بوجھ کر ملک کو تماشہ بنا رہے ہیں دنیا ہم پر ہنس رہی ہے اور سمجھتی ہے کہ شاید یہ انسان نہیں کوئی اور ہی مخلوق ہے جسے اپنی تباہی اور اچھے برے کی تمیزہی نہیں جو اپنی تباہی کیلئے اپنے ہاتھوں سے گڑھے کھود رہی ہے اور تباہی کے دھانے پر کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہی ہے۔ یہ ذمہ دار انسانوں کا معاشرہ نہیں ہو سکتا کوئی اور ہی مخلوق ہو سکتی ہے ملک معاشی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور ہمیں اقتدار کی ہوس نے اندھا کر رکھا ہے۔ اس ملک کے کرتا دھرتا لوگوں کو اپنی اناوئں سے آگے کچھ نظر نہیں آتا سیاستدانوں کو ملک سے زیادہ اپنی سیاست اور مفاد عزیز ہے ہمارے معاشرے میں آج بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول کارفرما ہے۔ کوئی ہے اس ملک میں جو اس ڈرٹی پالیٹکس کو روکے۔ عدالت نے ہمیں ایک عوامی رائے کے حصول کا راستہ دکھایا تھا کہ ضمنی الیکشن سے پنجاب کے عوام فیصلہ کریں کہ وہ کس سیاسی جماعت یا اتحاد کو حکمرانی کا مینڈیٹ دیتے ہیں۔ عوام نے واضح طور پر ایک جماعت کو حق حکمرانی کا مینڈیٹ دیا جس کے بعد کسی ڈھکوسلے یا جگاڑ کی گنجائش باقی نہیں رہتی لیکن ہم نے اس عوامی فیصلے کی توہین کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہہ رہے ہیں تم اپنا فیصلہ اپنے پاس رکھو ہم سے اقتدار لے کر دکھاو۔ ہمارے سیاستدانوں کے اعلی کردار کے کیا کہنے کہ کسی کو کسی پر اعتبار نہیں ہر کسی نے اپنی جماعت کے اراکین کو ہوٹلوں میں قید کر لیا کہ اگر انھیں آزاد چھوڑا تو یہ کہیں فروخت نہ ہو جائیں اسمبلی میں انھیں اس طرح لایا گیا جیسے قیدیوں کو لایا جاتا ہے ڈربوں میں بند چوزوں کی طرح۔ ارکان اسمبلی سے رائے لینے سے بھی بات نہ بنی تو ایسے جگاڑ کے ذریعے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی گئی جسے صرف ڈھکوسلہ ہی کہا جا سکتا ہے ہم نئی روایات کی آبیاری کر رہے ہیں اور ہمیں راہ دکھانے والے ہمیں بتا رہے ہیں کہ اس ملک میں جس کا زور چلے وہ جو مرضی کر لے۔ ہمارے سیاستدان یہ بھی ثابت کر رہے ہیں کہ ہم اس جمہوری نظام کے قابل نہیں اور نہ ہی ہمارے میں اہلیت ہے کہ ہم خود فیصلے کر سکیں معاملات کو چلا سکیں ہم ہر معاملہ عدالت میں لے جا رہے ہیں جس سے مقننہ بے توقیر ہو رہی ہے چند ماہ سے تو ایسے لگ رہا ہے کہ ہماری مقننہ مفلوج ہو چکی جوعدالتی ڈائریکشن کے بغیر نہیں چل سکتی ہمارے پارلیمنٹرین ثابت کر رہے ہیں کہ ہم نا اہل ہیں ہم میں معاملات چلانے کی اہلیت نہیں اس لیے ہر معاملہ میں ہمیں بھاگ کر عدالت کے پاس جانا پڑتا ہے پنجاب کے معاملہ پر سپریم کورٹ نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ ضمنی الیکشن کے بعد وزارت اعلی کا انتخاب کروایا جائے تاکہ مستقل طور پر یہ معاملہ حل ہو سکے لیکن ایک فریق کو واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود جگاڑ لگا کر دوسرے فریق کی حکومت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ انتہائی کمزور ہے جو کسی بھی لحاظ سے جواز نہیں رکھتی کہ اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے فیصلہ ہمیشہ پارلیمانی لیڈر کا ہوتا ہے مسلم لیگ ق واضح طور چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلی نامزد کر چکی تھی اور الیکشن سے ایک روز قبل تک پارٹی سربراہ یہ کہہ رہے تھے کہ چوہدری پرویز الٰہی انکے امیدوار ہیں اور اکثریت حاصل کرنے والوں کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومت بنائیں۔ پھر الیکشن سے ایک رات قبل کیا ہوا کہ چوہدری شجاعت حسین ڈھیر ہو گئے۔ کیا ڈیل ہوئی یہ بڑا سوال ہے رپورٹرز کو چاہیے کہ وہ کھوج لگائیں۔ زرداری کی چوہدری شجاعت سے کیا ڈیل ہوئی ہے یہ اتنا آسان معاملہ نہیں اسکے پیچھے بڑی کہانی ہے چوہدری شجاعت کا چوری چھپے لکھا گیا خط جس کا علم ان کے اراکین اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ہوا انہیں الہام ہوتا تھا کہ پارٹی سربراہ کی منشاء کیا ہے بظاہر اس خط کا اخلاقی اور قانونی جواز بہت کمزور ہے لیکن معاملہ چونکہ عدالت میں جا چکا ہے عدالت اس پر فیصلہ کرے گی پی ڈی ایم کو بھی پتہ ہے کہ ان کی یہ چال زیادہ دیر تک کارگر نہیں رہ سکتی اس لیے وہ حیلوں بہانوں سے وقت گزار رہے ہیں وہ ان ڈھکوسلوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو چند دنوں تک تو بچا سکتے ہیں لیکن اس عمل سے وہ عمران خان کو سیاسی طور پر اور زیادہ مضبوط کرتے جا رہے ہیں جس طرح رجیم چینج کے عمل نے عمران خان کو ایک نئی زندگی دی اور پستی میں گرے ہوئے عمران خان اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے کیونکہ عوام نے عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے طریقہ کار کو زیادتی تصور کیا اب پنجاب کے عوام نے فیصلہ عمران خان کے حق میں دیا ہے اسے قبول نہ کر کے پی ڈی ایم عمران خان کو سیاسی دیو بنا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کا اقتدار سے چمٹے رہنے کا فارمولا انھیں عوامی پذیرائی سے دور کرتا جا رہا ہے جتنا گند ڈل چکا اسکے بعد موجودہ سیٹ اپ کا برقرار رہنا ممکن نہیں رہا سیاستدانوں کے پاس آخری چانس رہ گیا ہے کہ وہ اب بھی مل بیٹھ کر نئے الیکشن کی راہ نکال لیں۔ اقتدار کی کھینچا تانی کاہر لمحہ پاکستان کو بربادی کی طرف لے جا رہا ہے ہمیں خطوط اور سازشوں کی سیاست سے باہر نکل کر ملکی مسائل کی سیاست کی طرف آنا ہو گا۔ عوام سیاستدانوں کی حرکتوں سے چڑچڑے ہو رہے ہیں خدارا ہوش کے ناخن لیے جائیں عوام کو خانہ جنگی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔