جامع القرآن
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، انتہائی گہرے زخموں کے باعث انکی زندگی کی امیدباقی نہ رہی۔ انھوں نے اپنی نیابت کا فیصلہ ایک کونسل پر چھوڑ دیا۔ یہ وہ چھ افراد تھے، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ مبارکہ میں راضی رہے، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد ابن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم آپ نے حکم فرمایا کہ میرے بعد خلافت ان چھ افراد سے کسی ایک کے پاس ہوگی اور اس کا فیصلہ بھی یہی افراد باہمی صلاح و مشورہ سے کرینگے۔ تین دن طویل مشاورت ہوئی، احتیاطاً لوگوں سے بھی رائے لی گئی اور اتفاق رائے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو امیرالمومنین منتخب کیا گیا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس منصب کی بشارت بھی عطاء فرمائی تھی، حضرت عثمان غنی رعایا کے حق میں ایک نہایت مہربان اور شفیق حکمران ثابت ہوئے۔ آپ نے اپنے عہدِ خلافت میں بیت المال سے تنخواہ یا کوئی اور اضافی مراعات حاصل نہیں کی، بلکہ اپنے ذاتی وسائل بھی امت کی فلاح وبہبود کیلئے وقف کردیئے۔ آپ نے نظم مملکت کو بڑی دانائی اور حکمت سے استوار کیا۔ عدل فاروقی کی روایت کو قائم ودائم رکھا۔ علم کی ترویج اشاعت کا سلسلہ جاری رہا، آپ خود بھی مجتہدانہ بصیرت کے حامل تھے خاص طور پر وراثت اورحج کے مسائل میں، آپکی رائے کو درجہ استناد حاصل تھا۔ خود بھی حدیث نبوی کی روایت فرماتے لیکن اس معاملے میں بڑی حزم واحتیاط سے کام لیتے۔ آپ نے لوگوں کیلئے جاگیریں مقرر فرمائیں اور جانوروں کیلئے چراگائیں قائم کیں۔ نظم ونسق کیلئے محکمہ پولیس قائم کیا اور اسکے عہدے دار مقرر کیے۔ مسجد نبوی شریف میں توسیع ہوئی اور اسکی تزئین وآرائش کی گئی۔ مؤذنوں کی تنخواہیں مقر ر کی گئیں۔ وسائل کی ایسی فراوانی ہوئی کہ لوگ فکرِ معاش سے آزاد ہوگئے۔ مملکت اسلامیہ کی سرحدی حدود میں توسیع کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلم مملکت کا رقبہ کم وبیش 24 لاکھ مربع میل تھا، حضرت عثمان کے زمانے میں یہ رقبہ کم و بیش 48 لاکھ مربع میل تک وسعت اختیار کر گیا اور سندھ سے کابل، لبیا سے لیکر یورپ تک کا علاقہ اس میں شامل تھا۔ آپ نے مفتوحہ علاقوں میں چھاونیاں قائم کیں اور پوری مملکت میں سڑکیں، پل اور مسافر خانے بنوائے۔ پہلی بار بحری بیڑہ قائم کیا۔ آپ کی حیات مبارکہ کا اہم ترین کارنامہ خدمتِ قرآن کے حوالے سے ہے۔ عرب قرآن کو مختلف لہجوں اور قرأتوں سے تلاوت کرتے تھے۔ فتوحات کی وسعت کی وجہ سے یہ سہولت غلط فہمیوں کا باعث ہوسکتی تھی، آپ نے اپنی ’’فراست باطنی‘‘ سے پوری امت کو قرأتِ قریش پر جمع کردیا اور یوں آپ ’’جامع القرآن‘‘کہلائے۔