اتوار ،24 ذی الحج 1443ھ،24 جولائی 2022 ء
شجاعت کا کردار جمہوریت کی جیت ہے شہباز شریف ’’ زرداری سب پہ بھاری‘‘ بلاول
تخت لاہور پر قبضہ جمانے کے لئے جو گھمسان کا رن پڑا تھا۔ اس میں بقول جوش ملیح آبادی ’’بوڑھے بھی ناچتے ہیں جوانوں کے غول میں ‘‘ سترے بہترے بزرگ بھی اپنی پوری سیاسی توانائی کے ساتھ شامل تھے۔ عمران خان شہباز شریف‘ چودھری شجاعت ‘آصف زرداری‘ مولانا فضل الرحمن‘ چودھری پرویز الہٰی یہ سب بہترے تہترے کے پیٹے میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ ان سب نے اس یدھ بھومی میدان جنگ میں ہر طرح کے داؤ پیج آزمائے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو اس جنگ میں سب سے زیادہ عمر اور تجربہ رکھتا تھا۔ بالآخر اس کے ایک داؤ نے پوری جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ وہ مہایودھا بڑے جنگجو چودھری شجاعت جنہوں نے ایک ہی وار کرکے قصہ تمام کر دیا۔ ان میں یہ جرات اور وار کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ دوسرے مہا سیاسی یودھا آصف علی زرداری کا ہے۔ جنہوں نے کمال مہارت سے ذاتی تعلقات اور سیاسی ہنر آزما کہ چودھری شجاعت کو کچھ اس طرح اپنے رنگ میں رنگ دیا کہ وہ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کے مصداق دو جسم و یکجان ہوگئے اور انہوں نے خط لکھ کر ڈپٹی سپیکر کو بھجوایا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یوں بقول شاعر
کچے گھڑے نے جیت لی بازی لگی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا
یوں پنجاب کی پگ اب ایک مرتبہ پھر حمزہ شہباز کے سر باندھی جا چکی ہے‘ بلاول کااس موقعے پر اپنے والد گرامی کے لئے ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کہنا حق بجانب ہے۔ ورنہ یہ بازی حکومتی اتحاد کیلئے جیتنابہت مشکل تھی۔۔۔۔۔
٭٭٭٭
پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات دور نہیں‘ عمران خان
اول تو کسی بڑے سیاستدان کو زیب نہیں دیتا کہ ’’خاکم بدہن‘‘و ہ ایسے حالات پیدا کرنے کی سوچ بھی عوام کے دل دماغ میں ڈالے۔ سیاستدان تو جلتی ہوئی آگ کو بجھاتے ہیں ناکہ اسے ہوا دے کر خرمن ہستی ہی جلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ کبھی جیت کبھی ہار مقدر نبتی ہے۔ مگر کسی کو بھی اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ وہ افراتفری اور انتشار کے ایجنڈے کو فروغ دے یا اس بارے میں سوچے۔ سری لنکا میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکی وجہ سیاسی کم اور معاشی زیادہ ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم سیاسی اختلافات کو ذاتی جنگ بنا دیں۔ ہمیں سب سے پہلے ملک کے معاشی حالات پر توجہ دینا ہوگی کہ سدھر جائیں اور ہمارے ملک عزیز میں سری لنکا جیسے حالات پیدا نہ ہوں۔ اگر یہاں کے حالات بگڑے تونہ یہ رہیں گے نہ وہ۔ تمام سیاستدان جو حقیقت میں جو ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ایسے رگڑے میں آئیں گے کہ پھر ایک دوسرے کا گریبان چھوڑ کر فقیروں کی ٹولی کی طرح ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر یا کاندھوں پر رکھ کر نیوٹرلز کی گلی میں خوب گلا پھاڑ پھاڑ کر فقیرانہ صدا لگاتے پھرتے نظر آئیں گے۔ عوام کا کیا ہے وہ آج بھی بھوکے تھے کل بھی رہ لیں مگر یہ مراعات یافتہ طبقات کیا کریں گے۔ ان کا گزارہ کیسے ہوگا یہ بھوک ننگ تنگی ترشی کیسے برداشت کریں گے۔یہ سب شاید باہر بھاگ جائیںگے، اس لئے ہم سب کو دعا کرنی چاہئے کہ خدا ہمارے وطن عزیز کو اور ہم سب برے حالات سے محفوظ و مامون رہیں۔۔۔۔
٭٭٭٭
ثمینہ بیگ ،کے ٹو سرکرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں
سیاحت سے ہٹ کر یہ ایک اور اچھی خبر بھی پڑھنے کو ملی ہے کہ ثمینہ بیگ کے ٹو چوٹی سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئی ہیں۔ جس پر انہیں عوام اور خواص دونوں نے بہت بہت مبارکباد دی ہے۔ا ن کے اس کارنامے نے پاکستانی خواتین کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ثمینہ بیگ اور ان جیسی دیگرپاکستانی کوہ پیما خواتین جنہوں نے مختلف چوٹیاں سر کرکے اپنا نام بنایا ہے پوری قوم کے لئے فخر کا باعث ہیں۔ ان کے کارناموں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایک جدید اور آزاد معاشرہ ہے۔ جہاں خواتین کو اپنی اپنی صلاحیتیں دکھانے کی بھرپور اور مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہاں خواتین کو مذہب ذات یاصنفی امتیاز کی بنیاد پر دوسرے درجے کی شہری قرار دیا نہیں جا سکتا۔ کے ٹو دنیا کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد یہ ہمالیہ کے سر پر سجا دوسرا سب سے بلند تاج ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی نسبت کے ٹو کو زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اسکی چڑھائی بہت مشکل اور دشوار گزار ہے۔ اس کے باوجود جس لگن سے ثمینہ بیگ سمیت دیگر5 غیرملکی کوہ پیماؤں نے تمام مشکل اور کٹھن حالات کے باوجود یہ جان جوکھم کارنامہ سرانجام دیا وہ واقعی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ان پر عزم بلند حوصلہ خواتین کو دیکھ کر ہماری اور بھی بہت سی خواتین میں بھی کوہ پیمائی کا جذبہ پیدا ہوگا اور وہ بھی اس طرف راغب ہوں گی۔ جس طرح ہماری خواتین ہاکی کرکٹ اوردیگر کھیلوںمیں نام کما رہی ہیں۔ اب اس طرف بھی توجہ دیں گی۔۔۔۔۔
٭٭٭٭
برسات نے تباہی مچا دی۔ بلوچستان سب سے زیادہ متاثر
اس وقت ملک بھر میں مون سون یعنی ساون بھادوں کا سیزن ہے۔ اس میں خوب برسات ہوتی ہے۔ اس بار معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ یہ اعلانات کرتے کرتے محکمہ موسمیات کا گلا سوکھ چکا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونسے بیٹھے ہیں۔ کیا مجال ہے جو کسی محکمے کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ ہنگامی حالات میں کام کرنے والے ادارے بھی ستو پی کر سوئے رہتے ہیں۔ جب معاملہ حد سے گزر جاتا ہے۔ پانی سر تک آن پہنچتا ہے۔ تب انہیں ہوش آتا ہے۔ مگر وہی بات ’’ سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو کیا ہوا‘‘ اس سال تو مون سون سے قبل مون سون کے پری سپل نے بھی خوب طوفان اٹھائے رکھا۔ گلگت و بلتستان اور بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب نے جو تباہی مچائی وہ سب کے سامنے ہے۔ بلوچستان کے میدان اور پہاڑی علاقے دونوں سیلاب کی زد میں آئے۔ جہاں کافی اموات بھی ہوئیں اورکچے مکانات گرنے فصلوں و باغات کے تباہ ہونے سے کافی نقصان بھی ہوا۔ اب جب ایک بار پھر مون سون کی وجہ سے بارش نے زور باندھا ہے۔ آسمان سے ابر ٹوٹ کر برس رہا ہے یہ تو بلوچستان کے ساتھ پنجاب بھی سیلاب کی زد میں ہے۔ جس کے زرعی علاقے جہاں چاول کی بوائی شروع ہے اگر خوش ہیں توکے بپھرنے اور سیلاب سے بہت سے علاقے متاثر بھی ہو رہے ہیں۔ کاش ہماری کوئی حکومت اس سیلابی آفت پر قابو پانے کی کوشش کرتی۔ ڈیم اوربندبنا کر اس پانی کو تباہی پھیلانے سے روکتے تو آج یہ تباہی نہ ہوتی۔۔۔۔۔