• news

فل کورٹ کی استدعا مسترد : سپریم کورٹ، عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ: حکومتی اتحاد 

اسلام آباد(اعظم گِل/خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر رولنگ کے خلاف کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دوبارہ وفقہ لینے کے بعد محفوظ شدہ فیصلہ سنایا گیا کہ فل بینچ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں اور یہ ہی تین رکنی بینچ آج منگل کو ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فل کورٹ نہ بنانے سے متعلق تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے  وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب کے دوران ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست سننے کے لیے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران  حکومتی اتحادیوں اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ تین رکنی بنچ ہی سماعت کرے گا، عدالت نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور پیپلز پارٹی کی فریق بننے کی درخواستیں سماعت کے لئے منظورکرلی ہیں اور چودھری شجاعت کے وکیل صلاح الدین احمد اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کومیرٹ پر دلائل دینے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی جمعرات تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا بھی مستردکردی ہے ۔سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھاکہ آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے، ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہییں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ  نے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی درخواست پر سماعت کا آغاز کیا، عدالتی طلبی پر سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پرآئے تو عدالت نے استفسار کیاکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بار کے کافی صدور یہاں موجود ہیں۔ لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرثانی درخواستیں زیر التوا ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال بہت گھمبیر ہے، ہمارے سابق صدور نے اجلاس کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست بھی زیرالتوا ہے، دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کا براہ راست تعلق ہمارے فیصلے سے ہے۔ اس دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ ہوا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے پاس کرسی تو ہے ناں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سرکرسی کی پرواہ نہیں کرتا، ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے۔ عبداللطیف آفریدی نے کہا کہ آئینی بحران سے گریز کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے بھی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے فل بینچ بنانے کی استدعا کی تو عدالت نے استفسار کیا کہ کن نکات پر فل کورٹ سماعت کرے۔ عرفان قادر نے کہا کہ آئین کی دفعہ 63 اے کے حوالے سے آپ اپنے حکم نامے کا پیرا گراف نمبر1اور 2 پڑھ لیں جس سے سب باتیں کلیئر ہوجائیں گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیا، عرفان قادر نے کہا کہ صدر مملکت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس بھیجا، آرٹیکل 63 اے کو الگ کر کے نہیں پڑھا جاسکتا، سیاسی جماعت کو ہدایات پارٹی سربراہ دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں ڈپٹی سپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیا، ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن پر واضح ہے، پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کا کردار الگ الگ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، یہی نقطہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ ۔حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی سپیکر نے فیصلے کے پیراگراف نمبر تین پر انحصار کیا۔جسٹس منیب اخترنے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا، منصور اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے، 14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا لیکن 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے کی مزید وضاحت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، 18ویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔  ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے ۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، اگر پانچ رکنی بینچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ صدارتی ریفرنس میں ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ سے بچایا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت میں سینئر پارلیمینٹرینز نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر ہوسکتا ہے، اس کے کردار کو کم کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کو کردار بھی دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں موروثی پارٹیاں ہیں، ایک سربراہ باہر بیٹھ کر کیسے ہدایات دے سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ کو بھی پارلیمانی پارٹی کی رائے سننی ہوگی۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ 4 سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، جے یو آئی (ف) پارٹی سربراہ کے نام پر ہے لیکن مولانا فضل الرحمن پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو، منحرف رکن کے خلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، ووٹ کس کو ڈالنا ہے ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے پاس ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا۔اس پر ڈپٹی سپیکر کے وکیل نے کہا کہ ووٹ مسترد کرنے کی حد تک فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے، سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی تشریح کا ہے کہ درست کی یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے پر انحصار کر کے فیصلے سے آگے بڑھ کر رولنگ دی۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کی غلط تشریح تو نہیں کی۔سماعت کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کارروائی میں ایک بات پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ منصور اعوان نوجوان ہیں اور ان کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں،  اس موقع پرعدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوالات سے پریشان نہ ہوں، دلائل جاری رکھیں۔منصور اعوان نے کہا کہ عمران خان کی ہدایات کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا، الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر فیصلہ کیا، وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس شروع ہونے سے پہلے موصول ہو گیا تھا۔منصور اعوان نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے پہلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا، منصور اعوان نے عمران خان کی ایم پی ایز کو ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب انتخاب کے پہلے اور اب کے کیس میں فرق ہے، الیکشن کمیشن میں ارکان کا موقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی، موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا، منحرف ارکان اور اس کیس کے حقائق مختلف ہیں، ۔ان کا کہنا تھا کہ تمام 10 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیا، کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں دیا، تمام ارکان نے ایک طرف ووٹ ڈالا، دس ارکان میں کسی نے نہیں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ مقدمے کے میرٹ پر دلائل نہ دیں، فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل دیں۔ آپ بتائیں فل کورٹ کیوں نہ بنائی جائے، آپ دوسری سائیڈ کی فل کورٹ کی استدعا کے خلاف کیا موقف اپنائیں گے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے بڑا کلیئر ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمنٹیرین پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلئیریشن دینی ہوتی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت تسلیم کرنا ہی جمہوریت ہے۔ پارٹی اجلاس میں مختلف رائے دینے والا بھی فیصلے کا پابند ہوتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی آمریت کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 2015 کا عدالتی فیصلہ غیر آئینی ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے، فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے،گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ صرف 3 یا 4 کیسز میں بنا ہے، فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہوئیں۔ علی ظفر نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ حمزہ شہباز عبوری وزیر اعلی زیادہ سے زیادہ دیر رہیں،  بحران ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے علی ظفر سے کہاکہ جسٹس منیب اختر کے سوال کا جواب دیں کہ چوہدری شجاعت حسین کا خط کب اراکین تک پہنچا؟ علی ظفر کا کہنا تھاکہ چوہدری شجاعت حسین کا خط ق لیگ کے اراکین تک نہیں پہنچا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل امتیازصدیقی نے دلائل میں موقف اپنایا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر کو خط کسی نے آ کر نہیں دیا تھا،ڈپٹی سپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط انکی جیب میں تھا،  امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ  جا نہیں سکتا، ڈپٹی سپیکر نے کہا میرا فیصلہ چیلنج کر دیں۔عدالتی وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تووفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے یہ ہی احکامات ہیں، معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔  چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا،اس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم معذرت کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ معذرت نہیں کرتے آپ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں جائے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ووٹ کے نہ گننے کی تشریح درست نہیں کے نتیجے پر رن آف الیکشن ہی ختم ہوجائے گا، 12 کروڑ کے وزیراعلی کا مسئلہ ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فل کورٹ پر ہم نے سوچا ہے، فل کورٹ پیچیدہ کیسز میں بنائے جاتے ہیں، یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے پر ہمارا فیصلہ آ چکا ہے،  جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس سوال کا جواب دے چکے ہیں پارٹی سربراہ ہدایات دے سکتا ہے، کیس میں لمبا کرنے کی کوئی بات نہیں ہے،  موجودہ کیس میں کوئی سوموٹو نہیں لیا، آپ کے ہر لفظ کو سنا جائے گا،  چیف جسٹس نے کہا کہ میرٹس پر ہمارے سامنے سوال تھا پارٹی ہیڈ ہدایات دے سکتے ہے یا نہیں۔ فارق ایچ نائیک نے کہاکہ اب وقت اور حالات تبدیل ہو چکے ہیں، اس لئے عدالت جمعرات تک کیس ملتوی کرے، عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی۔  عدالت کا کہنا تھاکہ سوال بس اتنا ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کو غلط سمجھا ہے تو ہم اس کو درست کریں، فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی ۔چوہدری شجاعت حسین کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ عدالت نے یہ سوال پوچھے تھے کہ خط کب لکھے گئے؟ ارکان کو کب ملے ؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدالت نے صرف سمجھنے کیلئے سوال پوچھا تھا،، بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھاکہ کئی جماعتیں کہتی ہیں کاغذوں میں نام کسی کا بھی ہو ہمارا قائد فلاں ہے، اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے قائد کوئی بھی ہو، کسی جماعت کا سینیٹر ہو تووہ کس پارلیمانی پارٹی سے ہدایت لے گا؟ ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سپیکر نے فیصلہ خط ملنے کے وقت پر نہیں بلکہ عدالتی حکم کی روشنی میں دیا، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت ہے، پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہیے،  وکیل صلاح الدین کا کہنا تھاکہ ایم پی ایز اور ڈپٹی اسپیکر کو بھیجے خطوط کا ریکارڈ جمع کرائوں گا،حقائق سے متعلق کچھ ایسے سولات ہیں جو عدالت میں اٹھائے گئے ان کا جواب دینا ضروری ہے، ووٹ کا فیصلہ پارٹی سربراہ اور پارٹی کا ہوتا ہے۔  جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بار بار فل کورٹ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟  آپ 8 ججز کے فیصلے کا حوالہ دے رہے ہوں تو 9 ججز بھی سماعت کرسکتے ہیں،  یہ دیکھیں اکیسویں ترمیم میں فیصلہ کس تناسب سے آیا تھا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے،ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے،حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیے،حمزہ شہباز کا الیکشن غلط قرار دیاہم نے حمزہ شہباز کو یکم جولائی کو وزارت اعلی سے نہیں ہٹایا۔چوہدری شجاعت کے وکیل کا کہنا تھاکہ ہم معاملہ کو طول نہیں دینا چاہتے۔  چیف کسٹس نے کہا کہ وزیراعلی کے الیکشن کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے،  ہمیں یہ ڈھونڈ کر دے دیں کہ کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہیڈ غیر منتخب بھی ہو تو اس کی بات ماننا ہوتی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آج جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لئے وہ وزیراعلی ہے، ایسے وزیراعلی کو جاری رکھنے کیلئے ٹھوس قانونی وجوہات چاہئیں ،چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے آپ کہہ رہے ہیں پارٹی ہیڈ کا کنٹرول ہوتا ہے آپ خود سے سوال سے پوچھیں کہ آئین کے مطابق کس نے ہدایات دینی ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے علاوہ صرف دو ججز ہی یہاں دستیاب ہیں ،کوشش کر رہے ہیں جہاں عدالت آنے والوں کو سہولیات دیں، صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ امریکہ میں ججز سیاسی جماعتیں اور حکومت تعینات کرتی ہیں، شکر ہے پاکستان میں ایسا نظام نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ججز دستیاب نہیں ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم تین ججز کے علاوہ صرف دو مزید ججز شہر میں ہیں،  وکیل صلاح الدین نے کہاکہ وڈیو لنک کے ذریعے بھی ججز شریک ہو سکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ وڈیو لنک شکایت کنندگان کی سہولت کے لیے ہے،وزیراعلی  کے انتخاب کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو کیا اراکین اسمبلی ڈمی ہیں؟وکیل صلاح الدین نے کہاکہ اگر جلسے میں اراکین بیٹھے ہیں اور کہا جاتا ہے فلاں کو اسپورٹ کرنا ہے تو کیا یہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تصور ہو گا؟  حمزہ وزیراعلی بنیں یا پرویز الہی،آسمان نہیں گرے گا،  فل کورٹ معاملے سے متعلق دلائل کااختتام ہوا تو عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کیا اور پھر آکر فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی لیے تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی) حکومتی اتحاد نے وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب کیس کی عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں حکمران اتحاد اور  پی ڈی ایم کے قائدین کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں حکمران اتحاد اور پی ڈی ایم کے قائدین نے فل کورٹ کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹنے پر اتفاق کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، اے این پی کے قائدین،  بلوچستان عوامی پارٹی، بی این پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین بھی شریک  تھے۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور پارٹی کے دیگر قائدین بھی شریک ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں تمام قائدین نے متفقہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے پر اتفاق کیا۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے استدعا کی تھی کہ 3 جج نہیں فل کورٹ کیس سنے، فل کورٹ نہ بنایا گیا تو ہم بھی عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، ہم اس بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہیں، حکومت چاہتی ہے کوئی ادارہ مداخلت نہ کرے، عدالت میں ہمارے وکلا نے بینچ کو آئین کے مطابق مشورہ دیا، بد قسمتی سے عدلیہ نے غیرجانبداری سے ہمارے مطالبے پر غور کی بجائے اسے مسترد کردیا ہے۔ مریم نواز نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کیا اور کہا ہے مجھے یقین تھا فل کورٹ نہیں  بنے گا اور انصاف نہیں ملے گا۔ ٹویٹ میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ جب فیصلے آئین، قانون اور انصاف کے مطابق نہ ہوں تو فل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے۔ مریم کا مزید کہنا تھا کہ مجھے تو کم از کم یقین تھا، فل کورٹ نہیں بنے گا اور انصاف نہیں ملے گا، یہی میں قوم کو بتانا چاہتی تھی۔ قبل ازیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام  اور حکمران اتحاد کی جماعتوں نے  سپریم کورٹ سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے کیس میں فل کورٹ بنانے  کا مطالبہ کیا ہے  اور کہا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ 3 ججز ملک کی تقدیر کا فیصلہ کریں۔ یہ مطالبہ انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس ملک کی جمہوری جماعتوں کا اس وقت ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں فل کورٹ بینچ چاہیے، ملک جمہوری نظام کے تحت چلے گا، الیکٹڈ نظام کے مطابق چلے گا یا سلیکٹڈ نظام کے مطابق چلے گا؟۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ 3 شخص 1973 کے ائین پاکستان کو یک جنبش قلم تبدیل کردیں اور ہمیں اس کے لیے 30 سال جدوجہد کرنی پڑے، پھر قربانیاں دینی پڑتی ہیں، قوم کو لاشیں اٹھانا پڑتی ہیں، ہم ملک کے چاروں صوبوں کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک کو جمہوری طریقے سے چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک آئینی طریقے سے چلے، عمران خان کے دبائو میں آ کر آئین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگوں سے برداشت نہیں ہورہا کہ پاکستان جمہوری طریقے سے آگے بڑھے، پاکستان کے عوام کو پیغام پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔  مریم نواز نے کہا کہ پارٹی ہیڈ کو دیکھ کر آئین کی تشریح بدل جاتی ہے، رات کو سپریم کورٹ کھلی، رجسٹرار بھاگا بھاگا آیا، پٹیشن تیار بھی نہیں تھی، مسلم لیگ ن کے 25 اور ق لیگ کے 10 ارکان پی ٹی آئی کی جھولی میں پھینک دیے گئے۔ سیسلین مافیا اور گاڈ فادر کہتے ہوئے اقامے پر چلتا کیا، ڈکلیئرڈ اشتہاری عمران خان کورٹ روم نمبر ون میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوتے تھے۔ مریم نواز نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں عدالتی فیصلے دیکھیں تو رونگٹے کھڑے کرنے والی داستان ہے، کسی بھی ادارے کی توہین باہر سے نہیں ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، ایک غلط فیصلہ سارے مقدمے کو اڑا کر رکھ دے گا، ٹھیک فیصلہ کیا جائے تو تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معیشت کی حالت ٹھیک نہیں، جب 4 سال کے دوران عمران خان ملکی معیشت کو تباہ کر رہا تھا کیا اس دوران کسی نے کوئی بیان معیشت کی تباہی سے متعلق سنا، اگر معیشت کا موازنہ کرنا ہے تو پھر اس وقت سے موازنہ ہوگا جب آپ نے نواز شریف کو نکالا تھا اور عمران خان حکومت چھوڑ کر گیا اس وقت معیشت کی کیا حالت تھی۔  عدالت سے فیصلے کا حق نہیں چھین رہے، سب کو خود احتسابی کی ضرورت ہے، عوام اور عوامی نمائندوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے، مریم نواز کی باتیں تمام قائدین کی متفقہ رائے ہے۔ عدلیہ پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ جس حکومت کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اسے کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ جب ملکی اداروں کی مرضی کے مطابق حکومت نہیں بنی تو دھاندلی کے ذریعے نیا سیٹ اپ مسلط کیا گیا۔ اس قوم کو اس مقام پر نہ لے جائیں جہاں لوگ اداروں کے خلاف بغاوت کریں۔ اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے، خالد مگسی کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کی ۔ علاوہ ازیں وزراء نے سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ نظرثانی درخواست اور متعلقہ درخواستوں کو اکٹھے سنا جائے۔ فل کورٹ نہیں بنا تو شہباز بھی اس کیس میں پارٹی نہیں بنیں گے۔ فل کورٹ نہیں بنے گا تو اس سماعت کا بائیکاٹ کریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن