پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب : سپریم کورٹ
اسلام آباد+ لاہور (اعظم گل+ محمد صلاح الدین خان+نمائندہ خصوصی + اپنے سٹاف رپورٹر سے+ خصوصی نامہ نگار+ نیوز رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ عدالت نے قرار دیا حمزہ شہباز کے رن آف الیکشن میں 179 ووٹ تھے، جبکہ پرویز الٰہی کو 186 ارکان کی حمایت حاصل تھی، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کیخلاف پرویزالٰہی کی درخواست کو منظور کر لیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکن بنچ نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دیا اور کہا کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ نہیں رہے۔ سپیکر کی رولنگ درست نہیں، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ حمزہ شہباز کے ووٹ 179 اورپرویز الٰہی کے ووٹ 186 تھے۔ پنجاب کابینہ بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ پنجاب کے تمام وزراء فوری عہدے چھوڑ دیں۔ چیف سیکرٹری کو پرویز الٰہی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا اور کہا گیا آج رات ساڑھے گیارہ بجے تک پرویز الٰہی بطور وزیراعلیٰ پنجاب حلف لیں۔ گورنر پنجاب رات ساڑھے گیارہ بجے تک پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کا حلف لیں۔ گورنر کسی وجہ سے حلف نہ لیں تو صدر پرویز الٰہی سے حلف لیں۔ فیصلے کی کاپی فوری طور پر گورنر پنجاب، ڈپٹی سپیکر اور چیف سیکرٹری کو بھیجی جائے۔ عدالتی فیصلہ مختصر طور پر سنایا گیا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ قبل ازیں گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس کی سماعت کی۔ ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور حکومتی بائیکاٹ سے متعلق بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے عدالتی کارروائی کا مزید حصہ نہیں بنیں گے، ہم فل کورٹ درخواست مسترد کرنے کے حکم کیخلاف نظر ثانی دائر کرینگے۔ یہ کہہ کر عرفان قادر سپریم کورٹ سے واپس چلے گئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور کہا کہ پی پی پی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے مقدمہ میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کا کوئی ایشو نہیں تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کے سامنے 8 جج کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، جس کیس میں 8 ججز نے فیصلہ دیا وہ 17 رکنی بینچ تھا، آرٹیکل 63 سے فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا، فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں، عدالتی بائیکاٹ کرنے والے گریس (شائستگی) کا مظاہرہ کریں، بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں، دوسرے فریق سن رہے ہیں لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے، اس وقت انکی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔ علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں 13/4 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں، اس کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، ان کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محض غلطی تھی، کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا یا نہیں۔ وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ پارٹی سربراہ کا پارٹی پر کنٹرول کا کوئی سوال نہیں ہے، پارٹی کے اندر تمام اختیارات سربراہ کے ہی ہوتے ہیں، لیکن آرٹیکل 63 میں ارکان کو ہدایت دینا پارلیمانی پارٹی کا اختیار ہے، پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا، ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے، عائشہ گلالئی کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ تو واضح ہے کہ اگر کسی ممبر کو ضمیر کے مطابق پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دینا تو استعفیٰ دے کر دوبارہ آ جائے، عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کے خلاف جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں، لیکن ووٹنگ کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی سربراہ جاری کرتا ہے، کل عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی پابند ہے؟۔ علی ظفر نے کہا کہ کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند نہیں بناتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کتنے منحرف ارکان نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا؟۔ وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ بیس میں سے 16 نے ن لیگ، دو نے آزاد الیکشن لڑا، جن 18 نے الیکشن لڑا ان میں سے 17 کو شکست ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فریق دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی ہیڈ عمران خان نے دی اور اگر الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہو جائیں گے اور حمزہ کے ووٹ 197 ہوجائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا معاملہ طے ہو چکا، اب مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا حکمران اتحاد کے بائیکاٹ کے فیصلے سے وفاقی حکومت الگ ہوگئی ہے؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی معاونت کیلئے سب کو ویلکم کرینگے۔ عامر رحمان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں واضح ہے ووٹ شمار نہیں ہوگا، ہدایات پارلیمانی پارٹی یا پارٹی صدر دے گا اس پر وضاحت نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ٹوکا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی واضح لکھا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2015 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہر عدالت کیلئے ماننا ضروری ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں۔ علاوہ ازیں ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔ تحریری حکمنامہ تین صفحات پر مشتمل ہے جس میں فیصلہ سنایا گیا کہ دوران سماعت فریقین کے وکلا نے فل کورٹ کے حوالے سے گزارشات کیں، ہم نے وکلا کو فل کورٹ کے حوالے سے گھنٹوں سنا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کیس میں صرف ایک ہی قانونی نکتہ شامل ہے، کہ آیا 63 ون بی کے تحت پارلیمانی سربراہ ہدایات جاری کر سکتا ہے یا پارٹی کا سربراہ، شجاعت حسین، پیپلز پارٹی اور ڈپٹی سپیکر کے وکلا نے پارٹی ہیڈ کے ہدایات جاری کرنے کے حق میں دلائل دیے۔ تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ کیس تفصیلی سننے کے بعد فل کورٹ بھجوانے کی حد تک استدعا مسترد کرتے ہیں، دوران سماعت فریقین کے وکلا نے گزارشات کے لیے مذید مہلت کی استدعا کی جسے منظور کیا۔ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الہی کو نیا وزیراعلی پنجاب قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے کابینہ تحلیل کرکے حمزہ شہباز کو فوری طورپر وزیراعلی ہاؤس خالی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کردیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلہ تاخیر کا شکار ہونے پر سب سے پہلے معذرت کی اور حکم نامہ سنانا شروع کیا، ق لیگ کے مسترد شدہ ووٹوں کو درست قرار دیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے حکم کو غلط سمجھا اور رولنگ دیتے ہوئے ق لیگ کے درست ووٹوں کو مسترد کیا۔ عدالت نے حکم کی کاپی فریقین کو فوری فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ تمام فریقین کو سماعت کا موقع دیا گیا لیکن مدعا علیہان کے وکلا نے موقف اپنایا کہ ان کے موکلین اس معاملے میں مزید اپنا موقف نہیں دینا چاہتے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ حمزہ شہباز منتخب وزیراعلی نہیں ہیں، ان کی طرف سے لیا گیا حلف بھی غیر قانونی و غیر آئینی ہے۔ حمزہ شہباز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی غیر آئینی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ حمزہ شہباز نے جو کام آئین و قانون کے مطابق کئے ہیں ان کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، ٹھوس وجہ کے بغیر اپنی رائے تبدیل نہیں کر سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی واضح قانون سامنے آئے تو معذرت کر کے رائے تبدیل کر لوں گا، پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل مکمل کر لئے تو پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کر تے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال یہ بھی ہے کہ فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں۔ اس موقع پر عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کا اعلان کردیا۔ وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آ کر موقف اپنایا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے، علی ظفر نے کہا کہ یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے وزارت اعلی کے الیکشن پر متفقہ فیصلہ دیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدالت کو رضا مندی دی گئی ضمنی الیکشن ہونے دیا جائے۔ یہ یقین دہانی بھی دی گئی کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن کرایا جائے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے موجود ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہر عدالت کیلئے بائنڈنگ ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کی دلیل عجیب و غریب ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سنایا گیا۔ بعد ازاں چودھری پرویز الٰہی کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ تاہم گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے چوہدری پرویز الٰہی سے وزارت اعلیٰ کا حلف لینے سے انکار کردیا۔ اس کے ساتھ گورنر ہائوس کے گیٹ بھی بند رہے مگر چودھری پرویز الہی کے گورنر ہائوس کے باہر پہنچتے ہی گیٹ کھول دیے گئے۔ جس کے بعد وزیراعلی پنجاب گورنر ہائوس کے اندر چلے گئے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے گورنر پنجاب کو 26 جولائی رات ساڑھے 11 بجے نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب سے حلف لینے کا حکم دیا تھا، تاہم بلیغ الرحمان نے چوہدری پرویز الٰہی سے حلف لینے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد صدر مملکت سے حلف لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے فیصلہ کیا کہ وزیراعلی پنجاب کا حلف اسلام آباد کے ایوان صدر میں لیا جائے گا۔ چودھری پرویز الہی خصوصی طیارہ سے اسلام آباد روانہ ہوئے۔ اسلام آباد سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا خصوصی طیارہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو لانے کیلئے لاہور روانہ کیا گیا جس کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی ، چودھری وجاہت، مونس الٰہی، محمود الرشید، زین قریشی، مراد راس اور ان کی ممکنہ کابینہ کے اراکین ایوان صدر پہنچے۔ راولپنڈی سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق ایوان صدر میں پہلے مرحلے میں وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی حلف برداری کی تقریب رکھی گئی ہے جس کے بعد سب سے پہلے پنجاب اسمبلی کے نئے سپیکر کا انتخاب ہوگا۔ اس کے بعد صوبائی کابینہ کی تشکیل اور حلف برداری ہوگی۔ اسلام آباد سے محمد صلاح الدین خان کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے موقع پر سارا دن تحریک انصاف کے رہنما تقاریر کرتے رہے، پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کے سیاسی افراد عدالتی بائیکاٹ کے باعث کورٹ نہیں آئے، تحریک انصاف کے ورکرز صبح ہی سے شاہراہ دستور پر موجود تھے۔ شام تک ان کی تعداد بڑھتی رہی، تقریباً پونے نو بجے عدالتی فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی رہنمائوں اور وکرز نے جشن منایا، لڈیاں ڈالیں، مٹھائی تقسیم کی گئی، نعرے بازی کی۔ تحریک انصاف کے جھنڈے لہرائے گئے، حامی وکلاء اور خواتین نے بھی تحریک انصاف، عمران خان کے حق میں نعرے لگائے۔ کئی خواتین عدالتی فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آنے پر فرط جذبات سے رونے لگیں۔ انہوں نے جلد انتخابات کے اعلان کا مطالبہ کیا، اور سپریم کورٹ کے ججز کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ تحریک انصاف کے وکلاء نے بیرسٹر علی ظفر کو مبارک باد دی۔ جبکہ اس موقع پر موجود فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، پرویز خٹک، فیصل جاوید ، اعظم سواتی، ملائیکہ بخاری نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی، مٹھائی کھلائی۔ انہوں نے میڈیاسے گفتگو کی اور عدالتی فیصلہ کو آئین و قانون کے مطابق قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ملک میں انتخابات ہونے چاہئیں۔ لاہور میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کی بڑی تعداد اپنے دفاتر کے باہر اکٹھے ہونا شروع ہوگئی۔ مرکزی رہنما جمشید اقبال چیمہ، عندلیب عباس سمیت دیگر اراکین جیل روڈ دفتر کے باہر اکٹھے ہوکر نعرے لگاتے رہے۔گورنر ہاؤس کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ شیخوپورہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق شیخوپورہ میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی قیادت میں ریلیاں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ تحریک انصاف کے ضلعی سیکرٹریٹ میں ضلعی صدر کنور عمران سعید کی قیادت میں مٹھائی تقسیم کی گئی جبکہ حاجی محمد اقبال شیخ کی قیادت میں محلہ احمد پورہ میں ریلی نکالی گئی۔ دریں اثناء سپریم کورٹ کی ہدایت پر وزیراعلی پرویز الٰہی نے حمزہ شہباز سے ایوان وزیراعلیٰ میں ان کے تین ددفتر خالی کرا لیے ہیں۔ پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کے رہنما محمود الرشید کو حمزہ شہباز سے دفتر خالی کرانے کی ہدایت کی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ (ق) کے کارکنوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی۔ کارکن چوہدری پرویز الٰہی کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب کے سٹاف کو گھروں سے واپس بلا لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لاہور میں بھی پرویز الٰہی کی رہائش پر جشن منایا گیا۔ چودھری وجاہت حسین بھی پرویز الٰہی کی رہائش پر پہنچے۔ میاں محمود الرشید اور وجاہت حسین نے پرویز الٰہی کو مبارکباد دی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر ظہور الٰہی ہاؤس گجرات میں آتش بازی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ ملتان سے نمائندہ نوائے وقت کے مطابق پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ورکرز سڑکوں پر نکل آئے‘ رہنماؤں نے گھروں پر جشن منایا‘ مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے رہے۔ لاہور سے نیوز رپورٹر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی میاں محمود الرشید، غلام محی الدین دیوان، میاں محمد اکرم، عثمان رانا، محمد تنویر، ملک ظہیر عباس کھوکھر، شبیر گجر، ڈاکٹر سیمی بخاری، رخسانہ نوید ، شنیلا روت، روبینہ جمیل، روبینہ شاہین، ڈاکٹر نوشین، حامد معراج، طارق ثنا باجوہ، شبیر سیال، رانا عبدالسمیع، عدنان جمیل ، لاہور کے صدر شیخ امتیاز محمود، سیکرٹری اطلاعات اویس یونس، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عقیل احمد صدیقی، ملک فضل حسین، ڈاکٹر ثاقب حسین، عبدالکریم خان، ملک عثمان حمزہ، ملک امانت، عمران سلیمی، چوہدری سجاد منہیس، مبارک آفتاب گل، آصف بھٹی، ملک وقار احمد گجر، عبدالکریم کلواڑ، حاجی اصغر گوندل، رانا مدثر ایڈووکیٹ، اشتیاق ملک، خالد عزیز لون، چوہدری محسن، مزمل مہر، نعیم اللہ تاج نے کارکنوں کے ہمراہ اپنے اپنے علاقوں میں جشن منایا اور مٹھائی تقسیم کی گئی۔ رہنماؤں نے چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے پر مبارکباد پیش کی‘ نون لیگ کے گھروں میں سوگ رہا۔ کارکنوں‘ رہنماؤں کا کہنا تھا امپورٹڈ حکمرانوں کو فوری طور پر اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔ عوام تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ شہباز اور مریم کے حواری جیل جانے کی تیاری کر لیں۔ پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتی ہے۔ عوام کرپٹ حکمرانوں کا احتساب کریں گے۔