• news

اس جنم کے ساتھی

گزشتہ ماہ ایک خبر میری نظر سے گزری، محمد انور کمبوہ کے خاکوں پر مشتمل کتاب ’’اس جنم کے ساتھی‘‘ کی تعارفی تقریب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) میں ہو گی۔ مجھے یہ نام جانا مانا لگا۔ میں نے اپنے کالج کے ساتھی رمضان شاہد سے فون پر رابطہ کیااور محمد انور کمبوہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ ہمارا 1965ء میں اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) میں کالج کا ساتھی رہا ہے۔ بلکہ یہ میرا کلاس کا اور بینچ کا ساتھی بھی تھا۔ اس ناتے میں اسکے گاؤں بھی ایک مرتبہ گیا۔ اس کا گاؤں ’’پل شاہ دولہ‘‘ کامونکی کے قریب ہے۔ رمضان شاہد نے بتایا کہ کالج کے زمانے میں اُسے لکھنے کا شوق نہیں تھا۔ رمضان شاہد سے کالج کے زمانے سے لے کے اب تک دوستی چلی آ رہی ہے۔ وہ ایم اے کرنے کے بعد لیکچرر ہو گیا اور بطور پروفیسر ریٹائر ہوا، اب وہ اپنے نام سے پہلے پروفیسر لکھتا ہے۔ رمضان شاہد سے اب تک میرا ٹیلی فونک رابطہ ہے۔ میں نے رمضان شاہد سے محمد انور کمبوہ کا فون نمبر دریافت کیا اور پھر میری کمبوہ صاحب سے بات ہوئی اس نے مجھے مختصر طور پر بتایا کہ میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ اور سول لائنز میں تمہارا کالج فیلو رہا ہوں۔ بی اے کرنے کے بعد میں نے ایل ایل بی کیا اور ضلع کچہری گوجرانوالہ میں وکالت شروع کر دی، میں نے اس سے فرمائش کی کہ وہ اپنے خاکوں کا مجموعہ مجھے بذریعہ ڈاک بھجوا دے میں اس کا مطالعہ کر کے کالم لکھنا چاہتا ہوں۔ خاکے پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس میں تخلیقی صلاحیتیں بہت ہیں، اس نے کالج کے دور میں لکھنا شروع کیوں نہیں کیا۔ کتاب 2020ء میںشائع ہوئی مگر اسکی تقریب گزشتہ ماہ کروائی گئی۔ پہلا خاکہ اس نے اپنے والد کے بارے میں لکھا جس کا عنوان ہے ’’میرے محبوب‘‘ اٹھارہ صفحات پر مشتمل اس خاکے میں اُس نے اپنے والد کا نام کہیں نہیں لکھا۔ خاکہ پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اس کا والد کے ساتھ کس قدر پیار اور محبت رہا ہے۔ یہ ایک مثالی محبت تھی۔ یہ ایک قسم کا خاکہ نما مضمون ہے۔ اپنے والد کی موت کو اس نے اس طرح بیان کیا ہے۔ 
’’بس وہ پل پھر واپس نہیں آیا کہ میں ان کے ملکوتی چہرے کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو تسکین دے سکوں۔ رات کے کسی وقت وہ مجھے چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے وہ مجھے اس سنسار میں اکیلا چھوڑ کر جانا تو نہیں چاہتے ہوں گے قضا انہیں زبردستی لے گئی ہو گی۔ صبح جب میں اٹھا تو مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔ شفقت، محبت، پیار اور ایثار و قربانی جیسے الفاظ اپنے معنی کھو چکے تھے۔ اس وقت سے آج تک تنہا ہوں۔ جدائی کا پل کل کی بات لگتی ہے۔ اس وقت کا غم آج بھی تازہ ہے۔ وہ مجھے ساری زندگی اپنے سے جدا کرتے وقت فی امان اللہ کہتے رہے مجھے اس کوتاہی کا شدید دکھ ہے کہ میں انہیں جاتے ہوئے فی امان اللہ بھی نہ کہہ سکا۔ ان کو جدا ہوئے یوں تو ایک عرصہ گزر چکا ہے لیکن انکی کمی قدم قدم پر محسوس کرتا ہوں بے آسرا اور بے سہارا زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میں خود بڑھاپے میں قدم رکھ رہا ہوں۔ پیار کرنے والی وفا شعار بیوی ہے تابعدار بچے ہیں اب تو پوتے دھوہتے بھی ہیں۔ پورا آئیڈیل پریوار ہے۔ دوست احباب ہیں لیکن ان جیسی کامل ہستی کہیں نظر نہیں آتی‘‘ 
اس نے اپنے والد کے خاکے میں لکھا۔ میرے والد کی لائبریری میں ادبی، دینی اور تاریخی کتب کا ایک ذخیرہ تھا۔ انکی لائبریری سے میں نے جس پہلی کتاب کا مطالعہ کیا وہ وارث شاہ کی داستان ہیر رانجھا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسکے خاکوں میں پنجابی زبان کا ’’تڑکا‘‘ اور پنجابی اکھان (ضرب المثل) استعمال کیے گئے۔ اس میں دس خاکے ہیں اور آخر میں ایک مضمون ’’مقدمہ تاریخ پاکستان‘‘ شامل ہے۔ ایک خاکہ ’’چھلاوا‘‘ ہے جس میں ضلع کچہری لاہور میں وکلاء کے بیٹھنے کے لیے جھونپڑیاں ہوتی تھیں۔ سینئر اور نامور وکلاء جھونپڑیوں یا پھٹوں پر بیٹھتے تھے جن میں لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر اور سینئر ممبرز بیٹھتے تھے۔ البتہ معروف وکیل چوہدری محمد رفیق باجوہ، چوہدری غلام باری سلیمی، امین ملک، چوہدری عبدالرشید، احسان وائیں لائبریری کے باہر اوپن ائیر میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس خاکے میں محمد انور کمبوہ نے اکبر لاہوری کا ذکرنہیں کیا جو ایک ٹِبے پر میز کرسی رکھے بیٹھے ہوتے تھے۔ اکبر لاہوری اردو اور پنجابی کے نامور شاعر اور رائٹر تھے۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا حمید اکبر بھٹی اور بیٹی صدیقہ الطاف ایڈووکیٹ بھی بیٹھتے تھے۔ حمید اکبر بعد ازں پی سی ایس کر کے اے سی اور ڈی سی ہو گیا۔ کچہری بار روم میں مشتاق بٹ ایڈووکیٹ ، احسان وائیں، رفیق باجوہ بیٹھتے تھے۔  اس طرح ان حضرات سے بھی میری دوستی ہو گئی۔ آخر میں اس نے پاکستان کی مختصر تاریخ بیان کی ہے جو ہر زمانے کیلئے سند ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا پیش لفظ شامل ہے۔ کتاب میں احسان اللہ طاہر (صدر شعبہ پنجابی گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ) کی رائے بھی دی گئی ہے۔   کتاب کا انتساب اس نے اپنی رفیقہ حیات (ناز پروین) کے نام کیا ہے۔ کتاب ’’سانجھ‘‘ کے زیر اہتمام شائع کی گئی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن