ضمنی انتخابات کے بعد کا سیاسی منظرنامہ
یوں تو پاکستانی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پاکستان کے قیام سے ہی پاکستانی سیاست پر طالع آزما مسلط ہیں، آج یہ لفظ مفاد پرستی میں بدل چکا ہے، بد قسمتی سے مفاد پرستی نے ملک کے سیاسی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پاکستان سیاسی تجربہ گاہ اور سیاستدانوں کی چراہ گاہ بن چکا ہے۔جہاں صدارتی اور پارلیمانی دونوں طرزِ حکومت آزمائے جا چکے ہیں۔پاکستان کی 75سالہ تاریخ میںمیاں شہباز شریف غالباً23ویں وزیرِاعظم ہیں۔یہ بھی تاریخ کا المناک باب ہے کہ ا ب تک کوئی وزیرِاعظم مدت پوری نہیں کر سکا۔ 1956ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ملک کا آئینی سربراہ صدر کہلایا۔ 56سے پہلے تک یہ عہدہ گورنر جنرل کے پاس رہا۔سکندر مرزا پہلے شخص تھے جو 56کے آئین کے تحت صدر بنے مگر وہ صرف دو سال نکال سکے اور ایوب خان کے مارشل لاء کے نتیجے میں صدارت سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ دوسری طرف تین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اتفاقاً گیارہ گیارہ سال صدر رہے۔یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کبھی بھی استحکام نہیں رہا۔ جس کا نقصان معاشی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آیا۔ معاشی عدم استحکام نے ملک کو قرضوں کی دلدل اور آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا دیا۔دلدل کا یہ شاخسانہ ہوتا ہے کہ اس میں پھنسنے والا باہر نکلنے کی جتنی کوشش کرتا ہے، اتنا ہی دھنستا جاتا ہے۔یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔اسے بھی ملک کی بد قسمتی کہنا چاہیے کہ ہمارے یہاں دو سے اڑھائی سو سیاسی پارٹیاں الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ ہیں ان میں کوئی ایک پارٹی ملک گیر پارٹی نہیں تھی، پیپلز پارٹی نے جب 70کے انتخاب میں دوتہائی اکثریت حاصل کی تب بھی انہیں سرحد اور بلوچستان میں برائے نام نمائندگی ملی تھی۔ 1988 کے بعد سے یہاں دو پارٹی سسٹم 2018تک مروج رہا۔ 2018میں ایک تیسری قوت کے طور پر عمران خان کی تحریک انصاف سامنے آئی۔پاکستانی تاریخ میں ہونے والے عام انتخابات پر بھی تحفظات رہے سوائے 70 کے انتخابات کے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شفاف ترین انتخابات تھے، مگر آج ہی میں محترم قیوم نظامی کی ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا جس میں وہ اصغر خان کی کتاب کا حوالا دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ 70کے انتخابات سو فی صد شفاف نہیں تھے بلکہ جنرل یحییٰ خان نے ان پر اثر انداز ہونے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن بھٹوکی انتخابی مہم نے عوام میں بیداری کی جو لہر پیدا کی اس نے یحییٰ خان کی ایک نہ چلنے دی۔ اس کے بعد کے انتخابات میں مبینہ طور پر انٹر نیشنل اور نیشنل اسٹیبلشمنٹ کے اثر انداز ہونے کے قصے زبان زدِ عام ہیں۔2013کے انتخابات پر عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا بیانیا لے کر126دن کا دھرنا دیا۔ نتیجتاً جوڈیشل کمشن نے 40بے ضابطگیاں ماننے کے باوجود انتخابات کو شفاف قرار دیا۔ گذشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی ایک بار پھر یہ بیانیہ سننے میں آیا کہ پنجاب گورنمنٹ کے تمام تر حکومتی وسائل استعمال کر نے حتیٰ کہ الیکشن کمشن کی تمام تر حمایت کے باوجود پی ٹی آئی جیت گئی۔ دوسری طرف ہارنے والوں کا بیانیہ کہ اگر کسی قسم کی دھاندلی ہوتی تو پی ٹی آئی اتنی سیٹیں نہ جیت سکتی۔ نون لیگ اپنی ہار کو الیکشن کمشن پر اعتراض کو رد کرنے کے لیے استعمال کرتی دکھائی دی۔ قیوم نظامی کی بات کو دہراتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ عوامی بیداری نے دھاندلی کے ہر حربے کو ناکام بناکر رکھ دیا۔ضمنی انتخاب پر پورے پاکستان کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ وہ نشستیں تھیں جوپی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی نااہلی کے سبب خالی ہوئیں۔ نون لیگ نے انہی منحرف اراکین کی اکثریت کو نون لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑایا۔ نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ اگر لوٹوں کو ٹکٹ نہ دیتے تو نتیجہ یہ نہ ہوتا ۔ جواب میں لوٹوں نے کہا کہ ہماری شکست کی وجہ نون لیگ کا ٹکٹ لینا ہے، اگر ہم نون لیگ کا ٹکٹ نہ لیتے تو جیت جاتے ۔بعض تجزیہ نگاروں نے اسے اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت قرار دیا۔ ادھر نون لیگ کے زعماء نے اسے ہار میں جیت قرار دیا۔موجودہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی 15نشستوں پرجیت کے بعد شہباز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے۔کیوں کہ یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جس کی کسی صوبے میں حکومت نہیں۔ حکومتی اتحاد نے استعفے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے مدت پوری کرنے کا عندیہ دیا۔ تاہم پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت بننے کے بعد عمران کے آزادی مارچ کی پنجاب اور کے پی حکومت کی طرف سے کسی رکاوٹ کے بغیر اسلام آباد تک رسائی حکومت پر عام انتخابات کے لیے دباؤ کاسبب ہو گا۔ اکثر تجزیہ نگار اسے بیانیے کی دوڑ میں نون لیگ کے مقابلے میںعمران خان کے بیانیے کی جیت قرار دے رہے ہیں۔