پنجاب میں گورنر راج کی بازگشت، صوبائی اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے
اسلام آباد (چوہدری شاہد اجمل) ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گورنر راج لگائے جا نے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ گورنر راج کے تحت صوبے کے تمام تر اختیارات گورنر کے پاس آجاتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 232 کی شق نمبر 1کے تحت گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے گورنر راج کے اختیارات کو محدود کر دیا ہے۔ آئینی طور پر ملکی سلامتی یا کسی صوبے کو جنگ کا خطرہ ہو تو گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ بیرونی جارحیت یا صوبائی حکومت کے اختیارات سے باہر گڑبڑ ہو تو گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت ایسی صورتحال میں ایمرجنسی کا اعلان جاری کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی صدر کو متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد کی ضرورت ہوگی۔ صدر مملکت ذاتی اقدام کرتا ہے تو ایمرجنسی کا اعلان 10دن میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کرنا ہو گا۔ آرٹیکل 233 ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق وغیرہ معطل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا بڑا اختیار بھی گورنر کے پاس آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ گورنر کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ صوبے میں بگڑتی صورتحال پہ قابو پانے کے لئے فوج کو طلب کر لے جو انتہائی بڑا اختیار ہے۔ عام طور پہ یہ اختیار وزیرِاعلی اور صدرِ مملکت کے پاس ہوتا ہے۔ گورنر راج کی مدت کم از کم چھ ماہ ہوتی ہے۔ وزیر اعلی کے انتظامی اختیارات اور صوبے کے تمام معاملات براہِ راست گورنر کے پاس چلے جاتے ہیں اور صوبائی اسمبلی یا تو تحلیل کر دی جاتی ہے اور اگر تحلیل نہ کی جائے تو اس کے ارکان، وزرا ، مشیران، سپیکر یہاں تک کہ صوبائی حکومت کا سب سے بڑا عہدہ یعنی وزیرِاعلی بھی کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ صوبے کے گورنر کی تقرری وزیرِاعظم کرتا ہے۔ ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسے مواقع آئے ہیں جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے ہیں۔ 1958ء سے 1972ء تک اور 1977ء سے 1985ء کے فوجی قوانین مارشل لا کے دوران صوبوں میں گورنر راج نافذ رہا۔ جبکہ 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران میں گورنروں کو زبردست اختیارات حاصل رہے۔ سندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا جن کے دوران میں 1951ء سے 1953ء کے دوران میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔