الگ برتاؤ نہیں ، فیصلہ حق پر کرنا ہوگا : وزیراعظم
اسلام آباد (نامہ نگار) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، ہم پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے، ہم عمران خان کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں، جو ذمہ داری مجھے ملی ہے، جب تک پارٹی قائد اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اعتماد ہے، میں اپنی کوششیں کرتا رہوں گا۔ بدھ کو سپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان طوفانی بارشوں نے ہر جگہ تباہی پھیلائی، اللہ سے دعا ہے کہ جانے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ این ڈی ایم اے کے ذریعے امدادی کارروائیوں میں بھرپور طریقے سے وفاقی حکومت شریک ہے، نقصان زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت قطعاً کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہے گی، جو ہم نے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس میں مزید اضافہ کریں گے، کسانوں کو جو نقصان ہوا ہے، اس حوالے سے بھی بھرپور کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معزز ایوان پاکستان کے آئین کی ماں ہے، 1973 کا متفقہ آئین ہے، جس میں پورے پاکستان کی منتخب لیڈرشپ شامل تھی، اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی لیڈرشپ میں پاکستان بھر سے منتخب اراکین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اس آئین کی تشکیل کی، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ آئین پاکستان کی وحدت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاکمیت اللہ تعالی کی ہے، وہی مالک اور خالق ہے اس نے جو اختیار انسانوں کو دیا ہے، اور 22کروڑ عوام نے اس منتخب ایوان کو دیا ہے، آئین نے ان کے اختیارات متعین کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 75سال گزرنے کے باوجود آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، ملک میں ایک سے زائد بار مارشل لا آئے، پاکستان دو لخت ہوا، اور جمہوریت کا پودا طاقتور نہ ہوسکا۔ شہباز شریف نے کہ وہ ممالک جو بہت پیچھے تھے، آج ترقی کی دوڑ میں وہ آگے نکل چکے ہیں۔ جناب سپیکر! یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب جانتے ہیں کہ 2018کے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں بدترین جھرلو الیکشن تھے، ایک ایسی حکومت مسلط ہو گئی جو صریحاً دھاندلی کی پیداوار تھی، اندھیرے میں آر ٹی ایس سسٹم بند ہو گیا، امیدواروں کا جو حق تھا اس کو سابق چیف جسٹس کے حکم پر گنتی کو رکوایا گیا، وقت پر گنتی نہ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ 2018کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی، انہوں نے 20ہزار ارب روپے سے زائد کے قرضے لیے، جی ڈی پی 2019اور 2020میں منفی میں ہو گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا، اس وقت متحدہ اپوزیشن سیاست کو مقدم رکھتی تو ریاست کا خدا حافظ تھا، ہم سب نے مل کر مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ ریاست کو بچانا ہے، ہم جانتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، اور معیشت کو بحال کرانا آسان کام نہیں۔ کیا ہم چور دروازے پر آئے؟۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم ہائوس پر کسی نے چڑھائی نہیں کی بلکہ ایوان نے ووٹ کی طاقت سے آئین اور قانون کے مطابق بدترین کرپٹ حکومت کو بدلا اور چیلنج قبول کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے پتہ تھا کہ حکمراں اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے کمال مہربانی سے، چاہے آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، مگسی، خالد صدیقی یا اے این پی کے قائدین ہوں، چاہے وہ مینگل صاحب، داوڑ صاحب یا اسلم بھوتانی صاحب ہوں، سب نے مل کر بڑی محبت سے اور میرے قائد نواز شریف نے مجھے منتخب کیا، میں جانتا تھا کہ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے اللہ تعالی کا نام لے کر ان کی معاونت قبول کی، وزیراعظم بننا ہوتا تو ماضی میں 1992میں ایک صدر نے کہا تھا کہ تم وزیراعظم بن جائو، بعدازاں جنرل مشرف نے کہا کہ وزیراعظم بن جائو، اس کے علاوہ بھی ایسے راز ہیں جو میرے دل میں دفن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پانامہ کے بدلے اقامہ میں ناجائز سزا دی گئی تو ایک قانونی اور آئینی مجبوری تھی کہ کسی کو وزیراعظم منتخب کرنا تھا، انہوں نے مجھے چنا، لیکن میں نے فیصلہ کیا میں پنجاب کے منصوبوں کو مکمل کرلوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت بلائے تو ہمیں جانا چاہیے اس میں کوئی دو رائے نہیں، لیکن فیصلہ انصاف اور حق کی بنیاد پر کرنا ہوگا، یہ نہیں ہوسکتا کہ میرے ساتھ کوئی اور برتائو کریں اور کسی کے ساتھ کوئی اور برتائو کریں۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت سے ہم نے جان چھڑوائی، کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کرپشن کی سب سے زیادہ سطح پی ٹی آئی کی حکومت میں تھی، اور پھر یہ کہتے ہیں کہ امپورٹڈ حکومت ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ جب عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر آئے تھے تو عمران نیازی نے کہا تھا کہ میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کہا کہ اگر روس سے ہمیں سستی گندم ملتی ہے تو بہت اچھی بات ہے، میں نے ان ممالک کو بھی بتا دیا کہ ہم نے پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بچانا ہیں، پرسوں ان کی جانب پیش کش آئی ہے، ہم نے ان سے کہا ہے کہ ہم موخر ادائیگی پر گندم خریدیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ غیر ملکی ایجنٹ یہ ہیں، چیف الیکشن کمیشن کیوں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے، اس کیس کو 8 سال ہو چکے ہیں، اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ عمران خان نے منگوائی، 8سال سے یہ کیس ہے کسی نے ازخود نوٹس لیا، پونے چار سالوں میں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جس کا مقصد تھا کہ پوری اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر ان کا نام و نشان مٹا دے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی پشاور میں اربوں کے غبن ہوئے، ہیلی کاپٹر کیس، مالم جبہ کیس اور اس کے علاوہ مونس الہی کا کیس نیب کرتا ہے کسی نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بیٹیاں، بہنیں گرفتار کی گئیں، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، سابق وزیراعظم کی سگی بہن کے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو خاموشی سے ایف بی آر سے این آر اور دلوایا جاتا ہے، کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں ایوان کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج ہم نے سچ کو سچ نہ کہا تو مملکت خداد شدید مشکلات میں گھر جائے گی، میرے منہ میں خاک، پھر آئندہ آنے والی نسلیں اس پر فیصلے دیں گی، ایک لاڈلے کو 15سال دودھ پلایا گیا اور اس کو لا کر بٹھایا گیا، ادارے دن رات اس کے لیے وہ کام کرتے تھے، 75سال میں کسی کو ایسی سپورٹ نہیں ملی اور نہ کبھی کسی کو ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تیل و گیس کی قیمتیں میرے اختیار میں نہیں، مہنگائی میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے کہا کہ ہنڈی سے پیسہ لائو، بجلی کے بل جلا دو، ٹیکس نہ دو، یہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے، کسی نے اس پر نوٹس نہیں لیا۔ ستمبر 2014 میں چینی صدر آرہے تھے تو منتیں کیں کہ تین دن کے لیے یہاں سے ہٹ جاؤ حتی کہ مقتدر ادارے نے بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے دھرنا ختم نہیں کیا، تو کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ مارچ میں ڈپٹی سپیکر، صدر پاکستان اور عمران نیازی نے مل کر دھوکے سے اسمبلی تحلیل کرنے کی کوشش کی، عدالت عظمی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے آئین شکنی کی لیکن انہیں کسی نے نہیں بلایا، پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کارروائی کرتے ہیں ، ان کو بلایا جاتا ہے، اگر اس طرح معاملات چلتے رہے تو قائد کی روح ہمیشہ کے لیے تڑپتی رہے گی۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر نے انٹرویو میں کہا کہ مجھے عمران نیازی نے بلا کر کہا تھا کہ شہباز شریف، خواجہ آصف، آصف زرداری، مریم نواز سمیت فلاں فلاں کے خلاف کیس کرو، انہوں نے کہا کہ میں نہیں کرتا، لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی ان کو بلا کر نہیں پوچھا۔ ہم اس کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں، جو ذمہ داری مجھے ملی ہے، جب تک پارٹی قائد اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اعتماد ہے، میں اپنی کوشش کرتا رہا ہوں، نتائج اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، اگر ہم میں اتحاد اور یکسوئی رہی تو اللہ تعالی کشتی کو پار لگائے گا، اور اگر ہم میں یہ جذبہ رہا کہ لڑیں گے لیکن شکست نہیں مانیں گے۔
اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جناب سپیکر آج ہی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے معاملے پر قرارداد ایوان میں پیش کی۔ وفاقی وزیر قانون کی جانب سے عدالتی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے متعلق قرارداد ایوان میں پیش کی گئی تو اراکین نے اسے متفقہ منظور کیا۔ عدالتی اصلاحت کے لیے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ قوانین کی منظوری اور آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا حق ہے۔ آئین انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات تقسیم کرتا ہے۔ ریاست کا کوئی بھی ستون ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ آرٹیکل 175اے کے تحت اعلی عدلیہ میں ججوں کے تقرر کی توثیق بھی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ پارلیمنٹ کسی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کی اجازت نہیں دے گی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی کے قیام کا، انسداد اغراق محصولات ترمیمی بل 2022 پیش کیا گیا جبکہ اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی ترمیمی بل اور ملکی قوانین کی اشاعت سے متعلق ترمیمی بل 2022 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔