• news

قانون کی بالادستی

بیاسی سال پہلے جب تھرجرمن فضائیہ نے لندن پر بمباری شروع کی تو برطانیہ کے وزیراعظم، سر ونسٹن چرچل کو "موت اور تباہی اور تمام معاشی سرگرمیوں کی تباہی" کے بارے میں بریفنگ دی جا رہی تھی۔
چرچل نے پوچھا کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟ چرچل کو بتایا گیا کہ "جج عدالتوں میں موجود ہیں اور انصاف فراہم کر رہے ہیں"۔ چرچل نے جواب دیا، "خدا کا شکر ہے۔ اگر عدالتیں کام کر رہی ہیں تو کچھ بھی غلط نہیں ہو سکتا۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اگر عدالتی فیصلہ کسی فرد یا جماعت کے حق میں ہو تو سب ٹھیک لیکن اگر فیصلہ خلاف آ جائے تو ججز یا ان کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔حالانکہ یہ امر توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے. توہین عدالت کے حوالے سے تفصیل کچھ یوں ہے کہ عدالتی فیصلوں اور احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کیخلاف 1976کا توہین عدالت کا قانون موجود تھا جسے ختم کر کے 2003 میں توہین عدالت آرڈیننس لایا گیا۔ 2012 میں اس میں ترمیم کی گئی جسے غالبا چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں بینچ نے مسترد کر دیا جبکہ 2016 میں اس کے سیکشنز 3 اور 5 میں ترامیم کی گئیں اور اسے ایکٹ کی شکل دی گئی۔توہین عدالت کے قانون میں توہین عدالت کی 3 اقسام کو بیان کیا گیا ہے۔
دیوانی توہین: عدالت کے کسی حکم، فیصلے یا اقرار جو عدالت سے کیا گیا ہو کی عمدا تضحیک یا خلاف ورزی کرنا۔فوجداری توہین: انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا یا اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے جج یا گواہ کو لالچ یا دھمکی وغیرہ دینا۔عدالتی توہین: عدالت کے بارے میں شرمناک یا تضحیک آمیز گفتگو کرنا یا کسی جج کے ذاتی کردار کو تنقید کا نشانہ بنانا۔ہر وہ کام جو کسی جج یا عدالت کی توہین کا باعث ہو توہین عدالت ہو گا۔ اعلیٰ عدالتیں (سپریم کورٹ، ہائی کورٹس) توہین عدالت پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کر سکتی ہیں۔ عدالتی توہین جس جج کے خلاف کی گئی ہو وہ اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتا بلکہ اسے چیف جسٹس کے سپرد کردے گا جو اسے خود سنیں گے یا کسی اور جج کے سپرد کریں گے۔عدالت توہین عدالت کے مرتکب فرد کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔توہین عدالت کے مقدمے کی کارروائی کھلی عدالت میں کی جاتی ہے اور ان مقدمات کا ریکارڈ دوسرے مقدمات سے الگ رکھا جاتا ہے۔قانون کے سیکشن 5 کے تحت توہین عدالت کے مرتکب شخص کو 6 مہینے تک قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ دیوانی توہین کی صورت میں قید کی سزا نہیں ہوگی۔ ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
توہین عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل کہاں کی جا سکتی ہے۔ اگر فیصلہ ہائیکورٹ کے ایک جج نے کیا ہو تو انٹرا کورٹ اپیل ہائیکورٹ میں ہی ہوگی جس کی سماعت 2 یا اس سے زیادہ ججوں کا بینچ کرے گا۔ اگر ابتدائی فیصلہ ڈویڑن بینچ یا اس سے بڑے بینچ نے کیا ہو تو اپیل سپریم کورٹ میں ہوگی۔ اگر ابتدائی فیصلہ سپریم کورٹ کے ایک جج یا 2 ججوں پر مشتمل بینچ نے کیا ہو تو انٹرا کورٹ اپیل سپریم کورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل بینچ میں ہوگی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر جس انداز میں اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنا رہی ہیں اور ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری  کی رولنگ کیس پر اعلی عدلیہ کے فیصلے کو 'جوڈیشل کو' کہہ رہی ہیں، انکا یہ امر توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے. اس فیصلے سے قبل سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی جن کے تانے بانے بھی مسلم لیگ (ن) سے ملتے ہیں. عدالت کا یہ اختیار ہے کہ وہ اس پر ایکشن لے کر انکے خلاف کارروائی کر سکتی ہے. سوال یہ ہے کہ جب قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہوئی تو انہوں نے اسمبلی توڑ دی اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کی رولنگ کے خلاف اعلیٰ عدلیہ نے سو موٹو الیکشن لیا، تب اسی عدلیہ نے آئین و قانون کی بالادستی کے لئے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کی رولنگ کو فیورٹ کر دیا تھا اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا تھا. تب مسلم لیگ (ن) کی جماعت اسی عدلیہ کی تعریف کرتی تھی جبکہ عمران خان عدلیہ کے فیصلے کے خلاف جلسوں میں تقریر کرتے تھے. بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ اگر مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو ججز کے خلاف دشنام طرازی شروع ہو جاتی ہے اور اگر عدالت سے اپنی منشا کے مطابق فیصلہ آ جائے تو تعریفوں کے پل باندھ دیے جاتے ہیں۔یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں بہت سقم ہیں. لاکھوں کیسز زیر التواء ہیں، لیکن اگر آئین و قانون کی بالادستی کے لئے اعلی عدلیہ سو موٹو ایکشن لیتی ہے اور آئین کے تقدس کی خاطر فیصلے کرتی ہے تو اس کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے. سیاسی جماعتوں کو اپنی عدالتوں اور ججوں پر اعتماد کرنا چاہیے، مسلم لیگ (ن) نے جس طرح ضمنی انتخابات میں شکست کو تسلیم کیا اسی طرح انہیں قانون کی حکمرانی اور بالادستی کے لئے عدالتی فیصلے کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن