پنجاب کی کابینہ اور نئے عام انتخابات کی طرف سفر!!!!!
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان آج لاہور میں مصروف سیاسی دن گذاریں گے۔ بنیادی طور پر ان کے دورہ لاہور کا مقصد پنجاب کابینہ کی تشکیل ہے۔ وہ اس دورے میں کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے اہم فیصلے کریں گے۔ اس حوالے سے مشاورت ہو چکی ہے۔ حتمی مشاورت میں وہ سیاسی اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے بعد حتمی فیصلے کی طرف بڑھیں گے۔ اس عمل میں سب سے اہم وزراء کا انتخاب ہے۔ گوکہ یہ اتحادی حکومت ہے لیکن پھر بھی وزارتوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کا بڑا حصہ ہو گا اس لیے وزراء کا انتخاب کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں اگر میرٹ پر سمجھوتا کیا گیا تو واپسی کا راستہ نہیں ہو گا۔ عمران خان نے اگر دو ہزار اٹھارہ والی غلطی دہرائی تو پنجاب میں جتنا عرصہ ان کی حکومت رہے گی بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ چونکہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت سب سے زیادہ نظر آ رہی ہے اور حکومت سے نکلنے کے بعد انہوں نے جو موقف اختیار کیا تھا اسے عوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ اب پنجاب کابینہ کی تشکیل میں یہ پہلو نظر انداز کیا گیا تو سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کا ہو گا۔ وزارتیں ان لوگوں کو ملنی چاہییں جو عمران خان کے گذشتہ چند ماہ کے بیانیے کو آگے بڑھانے اور اسے عوامی سطح پر قائم رکھنے اور عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وزارتوں کا فیصلہ کرتے ہوئے لگ بھگ چار سال تک مختلف وزارتوں میں رہنے والے ناکام وزراء اور مشیران سے دور رہنا چاہیے۔ جو وزراء پونے چار سال تک عوام سے دور رہے یا عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے رہے انہیں دوبارہ ذمہ داریاں دینے سے پہلے سوچنا ہو گا کہ جو لوگ آج پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں وہ مخالفت بھی کر سکتے ہیں۔ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ میں کئی ایسے وزراء شامل تھے جنہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ وہ تو بھلا ہو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی تحریک عدم اعتماد اور اس کے بعد حکومت سازی کا جس وجہ سے عوام بدظن ہوئی اور عمران خان نے عام آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر سیاست کی اور ایسے بیانیہ اپنایا جس پر عوام نے لبیک کہا اور اس کا اظہار پنجاب کے ضمنی انتخاب میں سب نے دیکھا۔ اب عمران خان نے ایک مرتبہ پھر کابینہ بنانی ہے لہذا ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان تحریکِ انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دی گی۔ دراصل عمران خان حکومت سازی کے راستے پر عام انتخابات کے اعلان کو سامنے رکھتے ہوئے چل رہے ہیں۔ وہ مسلسل وفاقی حکومت پر دباؤ بنائیں گے، ہر روز ان پر دباؤ بڑھائیں گے اور وفاقی حکومت کو عام انتخابات کے اعلان پر مجبور کر دیں گے۔ ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہی عام انتخابات کا ہے۔ اس کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کے ذریعے بھی وفاق کو عام انتخابات کے اعلان کی طرف لے کر جائیں گے۔ میاں نواز شریف بھی عام انتخابات چاہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ بہرحال عام انتخابات کے ساتھ ساتھ یہ بات توجہ طلب ہے کہ ملک میں جس حد تک سیاسی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے۔ پرامن عام انتخابات کے لیے بھی ریاستی اداروں، وکلاء ، سول سوسائٹی کو سیاسی جماعتوں کے مابین بہتر روابط کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا اگر سب لوگ ایک طرف ہو کر بیٹھے تماشہ دیکھتے رہے یا انتظار کرتے رہے تو سب کا نقصان ہو گا۔ پاکستان کسی بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی جماعتوں کے بڑوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ اگر اسی طرح دروازے بند کر کے بیٹھے رہیں گے تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بہرحال کسی کو آگے بڑھنا ہے، ذاتی اختلافات، ذاتی پسند نا پسند سے نکل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ملکی سلامتی کے لیے انا کی قربانی دے گا تاریخ اسے اچھے الفاظ میں یاد کرے گی۔
گزشتہ روز پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا ہے اسے بھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جا سکتا کچھ شک نہیں کہ پارلیمنٹ بھی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ اگر اداروں کو یہ درس دیا جائے کہ وہ حدود میں رہیں تو پھر یہ اصول پارلیمنٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر پارلیمنٹ کی بالادستی ہے تو دیگر ادارے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ جب حکومت بنتے ہی نیب ترامیم میں تبدیلی، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے قانون میں تبدیلی اور دیگر قوانین بنائے جائیں گے تو پھر خدشات بڑھتے ہیں ۔ اگر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہو اور آپ باہمی رضا مندی سے قوانین بناتے جائیں اور پہلے سے موجود قوانین تبدیل کرتے جائیں تو کیا تحریکِ انصاف کے سولہ ملین سے زائد رجسٹرڈ ممبرز ایسی قانون سازی کو تسلیم کریں گے۔ ہرگز نہیں کریں گے۔ اس لیے عدالتی فیصلے کے بعد اس قسم کی گفتگو اور بیانات مناسب نہیں ہیں۔ بہرحال آگے بڑھنا ہے اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ عام انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے اتفاق رائے سے آگے بڑھا جائے۔ امن سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں بھی دروازے بند کر کے بیٹھ جائیں تو گفتگو کون کرے گا۔