بارش نقصانات پر کمیٹی قائم ریاستی ادارے آئینی دائرہ کار میں کام کریں شہباز شریف
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کے خطاب میں بنیادی دلیل یہ تھی کہ جمہوری نظام کو ہموار اور موثر طریقے سے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے آئین کے متعین دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ جمعرات کو اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ اس بات کو سمجھے بغیر، ہم ایک دائرے میں گھومتے رہیں گے اور کہیں نہیں پہنچ پائیں گے۔ دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصان کے تعین کیلئے وفاقی وزراء کی کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی آئندہ چار دن کے اندر تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کریگی، کمیٹی کی سفارش پر متاثرین کی بحالی کے لئے جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے گا۔ جبکہ وزیراعظم نے متاثرہ مکانوں کے معاوضے میں اضافے اور قومی و صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیاں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی بجائے ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کی حکمت عملی پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ وزارتیں اور ادارے بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں سے رابطہ قائم کرکے مالی معاونت کے حصول کیلئے کوششیں تیز کریں، کراچی میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے سپریم کورٹ میں موجود فنڈ کی فراہمی کیلئے وفاقی حکومت معزز عدالت کو خط لکھے گی۔ جمعرات کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم کی زیرصدارت حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران نقصان کے جائزے کیلئے اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزراء مفتاح اسماعیل، مولانا اسعد محمود، مریم اورنگزیب، شیری رحمان، اسرار ترین، امین الحق، شازیہ مری، احسن اقبال، مولانا عبدالواسع، وزیرِ مملکت محمود ہاشم نوتیزئی، معاونینِ خصوصی احد چیمہ، سید فہد حسین، ارکان قومی اسمبلی خالد حسین مگسی، اسلم بھوتانی، امین حیدر ہوتی، مولانا عبدالاکبر چترالی، سردار ریاض محمد مزاری، مولانا صلاح الدین ایوبی، محسن داوڑ، غلام مصطفی شاہ، کیسومل کھیل داس، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے شرکت کی۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، وزیرِ اعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز نے اجلاس میں وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ اجلاس کو حالیہ مون سون بارشوں اور سیلابی صورتحال کے بارے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ خطے میں دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ اس سال پاکستان میں پری مون سون گزشتہ تیس سال کی اوسط کے مقابلے 67 فیصد جبکہ مون سون بارشیں 193 فیصد زیادہ ہوئیں۔ مون سون بارشوں کا بلوچستان میں تناسب گزشتہ تیس سال کی اوسط کے مقابلے 467 فیصد جبکہ سندھ میں 390 فیصد زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مجموعی طور پر اب تک اسلام آباد میں 1، بلوچستان میں 106، سندھ میں 90، خیبر پختونخوا میں 69، پنجاب میں 76 گلگت بلتستان میں 8، اور آزاد کشمیر میں 6 اموات ہوئیں جبکہ پورے پاکستان میں زخمیوں کی تعداد 406 ہے۔ اجلاس کو متاثرہ سڑکوں، منہدم ہونے والے رابطہ پلوں، مکانات اور مویشیوں کے نقصان کے بارے بھی تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ این ڈی ایم اے اور متعلقہ پی ڈی ایم ایز کی طرف سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ صوبائی انتظامیہ اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے کام میں مصروف ہیں۔ اجلاس کو متاثرین میں تقسیم کی جانے والی مالی امداد کے حوالے سے بھی تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم نے زخمیوں اور متاثرہ گھروں کی امداد کو یکساں کرنے اور بڑھانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے متاثرہ اور زخمیوں کی امداد کو 50 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جزوی طور پر متاثرہ مکانات کی امداد 25 ہزار سے بڑھا کر اڑھائی لاکھ اور مکمل طور پر متاثرہ گھروں کیلئے امداد 50 ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ کرنے کی بھی ہدایات جاری کیں۔ اس کے علاوہ وزیرِ اعظم نے ضلع رحیم یار خان میں کشتی الٹنے کے متاثرین کو بھی مذکورہ امداد فراہم کرنے کی منظوری دی۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مون سون بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصان کے تعین کیلئے وفاقی وزراء کی کمیٹی تشکیل دے دی جو آئندہ چار دن کے اندر تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کرے گی۔ 4 اگست کو کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں قلیل مدتی، وسط اور طویل مدتی جامع پلان تشکیل دیا جائے گا۔ وزیرِ اعظم نے اس موقع پر مزید کہا کہ وفاقی حکومت اس قدرتی آفت کے اثرات سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومتوں کی بھرپور معاونت کرے گی۔ باہمی معاونت سے متاثرہ لوگوں کی مدد کریں گے۔ وزیرِ اعظم نے مزید ہدایات جاری کیں کہ قومی و صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی بجائے ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کی حکمت عملی پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ اس کے علاوہ متعلقہ وزارتیں اور ادارے بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں سے رابطہ قائم کرکے مالی معاونت کے حصول کیلئے کوششیں تیز کریں۔ وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ کراچی میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے سپریم کورٹ میں موجود فنڈ کی فراہمی کیلئے وفاقی حکومت معزز عدالت کو خط لکھے گی۔ وزیرِ اعظم نے بارشوں اور سیلاب کے دوران این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو سراہا۔ مزید برآں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت ترقیاتی اہداف کو موسمیاتی تبدیلی کی ضروریات سے ہم آہنگ کررہی ہے۔ جمعرات کو اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی موجودہ دور کی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے نتیجے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک شدید متاثر ہورہے ہیں۔ حالیہ بارشیں اور سیلابی صورتحال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہبازشریف نے ہیپاٹائٹس کے عالمی دن پر پیغام میں کہا کہ ہیپاٹائٹس کا عالم دن جان لیوا مرض کی آگاہی کیلئے منایا جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سے ہر سال دنیا میں تقریباً 10 لاکھ افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔ اندازے کے مطابق ہر 13 بالغ پاکستانیوں میں سے ایک ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہوتا ہے۔ چھیاسی فیصد مریض ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہونے کے باوجود اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ نوے لاکھ پاکستانیوں کا ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہونا کسی خطرے سے کم نہیں۔ بروقت اقدامات نہ کیے تو مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔دوسری طرف وزیراعظم محمد شہباز شریف سے پاکستان میں عوامی جمہوریہ چین کے سفیر نونگ رونگ نے جمعرات کو اسلام آباد میں ملاقات کی۔ پاکستان اور چین کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں اور تعاون کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پاکستان، چائنہ آل ویدر سٹرٹیجک کوآپریٹو پارٹنرشپ کو مزید گہرا اور مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور چین بہترین دوست، مضبوط ترین شراکت دار اور آئرن برادرز ہیں۔ دونوں ممالک ہر چیلنج میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے اور بنیادی دلچسپی کے اہم امور پر تعاون کو فروغ دیا۔ انہوں نے پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور ترقی کے لیے چین کی حمایت کو سراہا، جس میں ابھرتے ہوئے اقتصادی چیلنجوں اور عالمی سپلائی چینز (supply chains) اور اشیاء میں اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے تعاون شامل ہے۔ وزیر اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت CPEC منصوبوں کی تیز رفتار اور اعلیٰ معیار تکمیل کے لیے بھرپور کوشش کرے گی۔ انہوں نے پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں ML-1 اور کراچی سرکلر ریلوے KCR جیسے اہم منصوبوں کی اہمیت پر زور دیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ CPEC جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے آئندہ 11ویں اجلاس میں ان منصوبوں کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ خصوصی اقتصادی زونز کی جلد تکمیل کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے ملک کی صنعتی ترقی میں چینی اداروں کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا۔ مزید براں وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ چین کو پاکستانی برآمدات کے لیے مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ سے پاک چین آزاد تجارتی معاہدے کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے میں مدد ملے گی۔ ملاقات میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، وزیر مملکت خارجہ امور حنا ربانی کھر، وزیر اعظم کے معاونین خصوصی طارق فاطمی، ظفر اللہ محمود اور جہانزیب خان نے بھی شرکت کی۔ مزید برآں وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس بہترین مثال ہے کہ کیسے لاڈلے کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ نوازشریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام پر نااہل کر دیا گیا تھا۔ لاڈلے کو کھلی چھوٹ دی گئی اور آٹھ سال سے فیصلہ نہیں آیا۔ فارن فنڈنگ کیس رکوانے کیلئے 9 رٹ پٹیشنز ہوئیں۔ 50 بار التوا دیا گیا۔
شہبازشریف