پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیاری باتیں!!!!!!
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیائ سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ امانت داری آسمان سے بعض لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتری، (یعنی ان کی فطرت میں داخل ہے) اور قرآن مجید نازل ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کا مطلب سمجھا اور سنت کا علم حاصل کیا تو قرآن و حدیث دونوں سے اس ایمانداری کو جو فطرتی تھی پوری قوت مل گئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے قرآن و حدیث پڑھنے والو تم اگر قرآن و حدیث پر نہ جمو گے، ادھر ادھر دائیں بائیں راستہ لو گے تو بھی گمراہ ہو گے بہت ہی بڑے گمراہ۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا میری اور جس دعوت کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے اے قوم! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگ دھڑنگ تم کو ڈرانے والا ہوں، پس بچاؤ کی صورت کرو تو اس قوم کے ایک گروہ نے بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ چلے گئے۔ اس لیے نجات پا گئے لیکن ان کی دوسری جماعت نے جھٹلایا اور اپنی جگہ ہی پر موجود رہے، پھر صبح سویرے ہی دشمن کے لشکر نے انہیں آلیا اور انہیں مارا اور ان کو برباد کردیا۔ تو یہ مثال ہے اس کی جو میری اطاعت کریں اور جو دعوت میں لایا ہوں اس کی پیروی کریں اور اس کی مثال ہے جو میری نافرمانی کریں اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلائیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے تو عرب کے کئی قبائل پھر گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کرلے کہ
لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے (مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر ? نے کہا کہ واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ئضرت ابوبکر کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جب تک میں تم سے یکسو رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دو (اور سوالات وغیرہ نہ کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے (غیر ضروری) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں تھا۔ نبی کریم ؐ کھجور کی ایک شاخ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہودی ادھر سے گذرے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ لیکن دوسروں نے کہا کہ ان سے نہ پوچھو۔ کہیں ایسی بات نہ سنا دیں جو تمہیں ناپسند ہے۔ آخر آپ کے پاس وہ لوگ آئے اور کہا: ابوالقاسم! روح کے بارے میں ہمیں بتائیے؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا، یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا، پھر آپ نے یہ آیت ویسالونک عن الروح قل الروح من امر ربی پڑھی اور آپ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہئے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا یا رسول اللہ! آپ کی تمام احادیث مرد لے گئے، ہمارے لیے بھی آپ کوئی دن اپنی طرف سے مخصوص کردیں جس میں ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہوجاؤ۔ چناچہ عورتیں جمع ہوئیں اور نبی کریم ان کے پاس آئے اور انہیں اس کی تعلیم دی جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو سکھایا تھا۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا تم میں سے جو عورت بھی اپنی زندگی میں اپنے تین بچے آگے بھیج دے گی۔ (یعنی ان کی وفات ہوجائے گی) تو وہ اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔ اس پر ان میں سے ایک خاتون نے عرض کی یا رسول اللہ! دو؟ انہوں نے اس کلمہ کو دو مرتب دہرایا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ہاں دو، دو، دو بھی یہی درجہ رکھتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ (ادائیگی سے پہلے ہی) وفات پا گئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے حج کرلو۔ تمہارا کیا خیال ہے، اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے پورا کرتیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ پھر اس قرض کو بھی پورا کر جو اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس قرض کا پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔