• news

ہر نیب ترمیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلہ نظر آرہا ہے : سپریم کورٹ 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عوام کا اختیار ہے کہ وہ مکمل آئین بھی تبدیل کرسکتے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے کی گئی ہر نیب ترامیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلہ نظر آ رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا معاشرے کے توازن کیلئے عدلیہ کی آزادی ضروری ہے۔ کسی کو فائدہ دینے کیلئے قانون کے بر خلاف کیا گیا عمل کر پشن ہے۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے سینئر وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بطور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت کی آئینی حیثیت میں معاونت کروں گا۔ جس کے بعد چیف جسٹس  نے کہا کل رات سے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی پٹیشن پڑھ رہا ہوں، درخواست کے کچھ نکات کی ابھی مزید وضاحت چاہئے۔ اپنی معروضات تفصیل سے پیش کریں کہ ترامیم آئین سے کیسے متصادم ہیں، عوام کے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں انکی نشاندہی کریں، یہ بھی بتائیں کون سی ترامیم ایسی ہیں جن سے نیب قانون اور زیر التوا کیسز متاثر ہو رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی نیب ترامیم کیخلاف درخواست زیر سماعت ہے، کیا مناسب نہیں ہوگا پہلے ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔ درخواست 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے اس لئے بنیادی حقوق سے تو ہم آگے جا بھی نہیں سکتے جس کے جواب میں خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ نیب ترامیم کا اطلاق ایک ہائیکورٹ نہیں پورے ملک پر ہوگا، نیب ترامیم کے بعد عوامی عہدیدار احتساب سے بالاتر ہوگئے ہیں، درخواستیں شاید مختلف ہائیکورٹس میں بھی آ جائیں، ابھی تک کیس اسلام آباد ہائیکورٹ کے سوا کہیں اور نہیں ہے۔ احتساب کے بغیر گورننس اور جمہوریت نہیں چل سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا ترامیم کو چیلنج کرنے پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے، بے نامی دار ایشو پر بھی وضاحت کریں۔ اگر خواجہ صاحب آپ اپنی گزارشات کا مختصر چارٹ بنالیں تو بہتر رہے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر حکومت نیب قانون ختم کر دیتی تو آپکی درخواست کی بنیاد کیا ہوتی؟ کیا عدالت ختم کیا گیا نیب قانون بحال کر سکتی ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا اسلام اور آئین دونوں میں احتساب پر زور دیا گیا ہے، عدلیہ کی آزادی اور عوامی عہدیداروں کا احتساب آئین کی بنیادی جزو ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ آئین کی اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں، آپ کے مطابق اگر احتساب ختم ہوجائے۔ چیف جسٹس نے کہا چیک اینڈ بیلنس ہونا جمہوریت کیلئے بہت ضروری ہے، کرپشن یہ ہے کہ آپ غیر قانونی کام کریں اور اس کا کسی کو فائدہ پہنچائیں، کرپشن بنیادی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانا ہے، چیف جسٹس نے کہا اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اس کی مخالفت کرے وہ قومی اثاثے کی مخالفت ہوگی، سابق جج مظہر عالم کہتے رہے ڈی آئی خان کو ڈیم کی ضرورت ہے، احتساب گورننس اور حکومت چلانے کیلئے بہت ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہمارا کام یہ نہیں کہ آپ کو درخواست مزید سخت بنانے کا کہیں، آپ کا کام ہے ہمیں بتانا کہ کون سی ترمیم کس طرح بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکوئی ترمیم اگر مخصوص ملزموں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہے تو وہ بتائیں، کیا آپ چاہتے ہیں عدالت پارلیمنٹ کو قانون میں بہتری کا کہے۔ خواجہ حارث نے کہاجو ترامیم آئین سے متصادم ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا یہ دلائل قابل قبول ہے کہ کوئی قانون پارلیمانی جمہوریت کیخلاف ہونے پر کالعدم کیا جائے؟۔ آپ نے لکھا ہے ترامیم پارلیمانی جمہوریت کے منافی ہے اور کئی ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے برعکس ہونے کا کہا ہے، ہمیں بتا دیں کون سی ترمیم آئین کے برخلاف ہے۔ جس پر عمران خان کے وکیل نے موقف اپنایا کہ بنیادی ڈھانچے کیخلاف آئینی ترمیم بھی ممکن نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے، عوام کا اختیار ہے کہ مکمل آئین بھی تبدیل کر سکتے ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا سپریم کورٹ آئینی ترامیم کیس میں بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کر چکی، مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی آئین کے تحت بنیادی حق ہے، کیا مفت تعلیم کا حق آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے؟۔ خواجہ حارث نے کہا سزائے موت ختم ہوئی تو پہلے شریعت کورٹ میں چیلنج ہوگی، پھر معاملہ سپریم کورٹ آئے گا۔ چیف جسٹس نے کہا عدلیہ کی آزادی اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں توازن برقرار رہ سکے، آئین کے آرٹیکل 4 پر کبھی تفصیل سے بحث نہیں ہوئی لیکن یہ بہت اہم ہے، بنیادی حقوق معطل ہو سکتے ہیں لیکن آرٹیکل 4 نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ کا انحصار اسلام پر ہے تو نیب ترامیم شریعت کورٹ میں کیوں نہیں چیلنج کرتے؟۔ جس پر وکیل نے کہا جن اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آئین میں درج ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا معزز جج صاحبان نے بھی تھوڑا کام کیا ہے، ججز نے پرانے نیب قانون اور نئی ترامیم کے موازنے کیلئے چارٹ بنائے ہوئے ہیں، خواجہ صاحب آپ کے ہاتھوں میں ایسا کوئی چارٹ نظر نہیں آ رہا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ نیب قانون کب پاس ہوا، کیا نیب قوانین میں کوئی ترامیم نہیں ہوئیں جس پر وکیل نے کہا نیب قانون لانے کی تاریخ میں آپ کو دے دیتا ہو۔ اس میں مختلف ترامیم کی گئیں ہیں لیکن اس مرتبہ کچھ ترامیم ایسی ہے جو بہت سنگین ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ان ترامیم کی نشاندہی کردیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ صرف ترامیم کو ختم ہی نہیں کروانا چاہتے بلکہ کچھ شامل بھی کروانا چاہتے ہیں، کیا ہم قانون میں چیزوں کو شامل کر سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا آپ ہم سے آئین میں چیزوں کو شامل کروانا چاہتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کی گئی ترامیم آئین ، پارلیمانی جمہوریت اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہر ترمیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلہ نظر آ رہا ہے، شواہد کے بغیر کارروائی کی وجہ سے تو کوئی بھی بیوروکریٹ فیصلے نہیں کر رہا تھا، حکومت کا کہنا ہے ان کا کام رک رہا تھا، سپریم کورٹ بہت سے فیصلوں میں پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ پہلے پراسیکیوشن کیس بنائے گا پھر ڈیفنس آئے گا۔ خواجہ حارث نے کہا شواہد کے حوالے سے جو عدالتی فیصلے تھے وہ پہلے ہی قانون کا حصہ بن چکے، چیف جسٹس نے کہا آپ چاہتے ہیں مفروضے پر کارروائی کا اختیار نیب کو واپس مل جائے؟۔ خواجہ حارث نے کہا ترامیم کے بعد کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ اثاثے کہاں سے بنائے؟ سوال پوچھے بغیر کیسے علم ہوگا کہ اثاثوں کے ذرائع کیا ہیں، ان ترامیم سے قومی بین الاقوامی معاہدوں کو نظر انداز کردیا۔ بہت سے زیر التوا مقدمات پر انکا اثر ہو گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا۔ یہ آپکا تاثر لگ رہا ہے۔ بند ہوئے کیس کو دوبارہ کھولنا اتنا آسان نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایسا تو نہیں ہوگا ایک ثبوت پیش ہو چکا ہو واپس ہوجائے۔ ٹرائل میں ایک ثبوت آ گیا تو یہ نہیں کہا جا سکتا باہر سے دوبارہ ثبوت لائے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا اگر ایسا ہوجائے تو مجھے کیا اعتراض ہے۔ ترمیم کی ذریعے ملزم کو اثاثے ٹرانسفر کرنے کا اختیار دیدیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پہلے تو نیب ملزم کے اثاثے عدالت سے منجمد کرا دیتا تھا۔ یہ ترمیم بھی شامل ہے جو پلی بارگین کریں وہ وعدہ معاف گواہ نہیں بن سکتا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہے کہ پلی بارگین کرنے والے کا وعدہ معاف گواہ بنایا جائے۔ پارلیمنٹ کے معاملہ پر عدالتی اختیار تب شروع ہوگا جب وہ غیر آئینی ہو۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کئی نیب ترامیم سے جرم کو ثابت کرنا مشکل بنادیا گیا۔ جس کے بعد وکیل نے استدعا کی کہ ترامیم کے تحت ریلیف کو درخواست پر فیصلے سے مشروط کیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر ریلیف کے حوالے سے کوئی بہت ایمرجنسی ہے اس حوالے سے بتائیں، یہ بھی بتائیں کیا بہت زیادہ زیر التواء  مقدمات ترامیم سے متاثر ہونگے؟۔ خواجہ حارث نے کہا حکم امتناعی نہیں مانگ رہا لیکن ترامیم کے تحت ملنے والا ریلیف مشروط کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا آئین کے تحت عدالت نے اپنا کام کرنا ہے، اپنے حلف کے تحت شفاف انداز میں کام جاری رکھیں گے۔ جمعہ پرامن ہوتا ہے اس لئے آئندہ جمعہ کو دوبارہ سماعت کرینگے، عام دنوں میں تو شام کو بھی کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے، جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت 5 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے ترامیم کے تحت ریلیف کو مشروط کرنے کی درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن