پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے آرمی چیف کا اقدام
وطن عزیز کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ ساتھ اب پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ بھی میدان عمل میںآ گئے ہیں۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق آرمی چیف نے امریکی ڈپٹی سیکرٹری وینڈی شرمن سے فون پر بات کی اور انہیں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام کا عمل تیز کرنے کیلئے کہا اور کہا کہ وائٹ ہاؤس آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو 1.2 ملین ڈالر کی فراہمی کیلئے دباؤ ڈالے۔
عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان کیلئے 2019ء میں منظور کردہ 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری کے بعد اس کی قسط وار ادائیگی کی جانی تھی۔ اس ضمن میں پہلی قسط تو سابقہ حکومت کے دور میں جاری کر دی گئی تھی لیکن اسکے ساتھ جو شرائط عائد کی گئی تھیں ان پر کماحقہ عمل نہیں کیا گیا یوں سابقہ حکومت کی وجہ سے آئی ایم ایف نے دوسری قسط کی ادائیگی روک دی۔ موجودہ حکومت شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہوئی تو اس نے بھی آئی ایم ایف سے مذکورہ قسط کے حصول کے سلسلے میں تگ و دو شروع کردی ۔ اس ضمن میں حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کی ٹیموں کے درمیان متعدد میٹنگز ہوئیں۔ان میٹنگز میں آئی ایم ایف نے پاکستان پر واضح کر دیا کہ جب تک طے شدہ شرائط پر من و عن عمل نہیں کیا جاتا قرضے کی دوسری قسط نہیں ملے گی۔ پاکستان کی معاشی بد حالی ، ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی کے ساتھ واقع ہوتی کمی، تجارتی خسارہ میں اضافہ اور ڈالر کے پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں اڑان بھرنے کی وجہ سے پاکستان مجبور تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے اس کی شرائط پر قرض حاصل کرتا ۔ چنانچہ حکومتی ٹیم نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سربراہی میں آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میںتمام شرائط پر عمل کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔ جس پر آئی ایم ایف کی طرف سے قسط کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کر دی گئی ۔ لیکن پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام اور سیاسی جماعتوں میں جاری لڑائی کی وجہ سے قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔ اس دوران وفاقی وزیر خزانہ کے علاوہ خود وزیراعظم بھی قوم کو یہ تسلی دیتے رہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جلد مل جائے گی لیکن عملا ایسا نہ ہوسکا ۔ اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے اپنے طور پر کی جانے والی کوشش سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی قسط بوجوہ مؤخر کر دی گئی ہے اور مذکورہ ادارے کی طرف سے جس طرح ادائیگی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی وہ تاحال عملی شکل اختیار نہیں کر سکی۔حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اس حوالے سے جھوٹی تسلیاں ہی دی جاتی رہیں ۔ چنانچہ ان حقائق سے پوری طرح آگاہی کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار نے خود کردارادا کرنے کا فیصلہ کیا اور امریکی ڈپٹی سیکرٹری سے قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں آئی ایم ایف پر دبا ڈالنے کی درخواست کی۔
اس اقدام سے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی ہے کہ امریکی انتظامیہ کا ابھی تک پاکستان کے حوالے سے شرح صدر نہیں ہوا ۔ عالمی مالیاتی ادارہ چونکہ امریکہ کے ہی زیر اثر ہے۔ اس لئے اس کی طرف سے قسط کی ادائیگی میں لیت و لعل کرنے کے پیچھے امریکی دباو ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس سے پہلے جب تحریک انصاف کی حکومت وفاق میں قائم ہوئی تھی تو اسے بھی ابتداء میں سخت مالی بحران کا سامنا تھا۔ خزانہ خالی ہو چکا تھا اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے قومی خزانے میں پیسے نہیں تھے۔ ان مشکل حالات میں بھی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے حکومت کی معاونت کرتے ہوئے دوست ممالک سے مالی امداد کے حصول کیلئے رابطہ کیا اور حکومت کی نیشنل اکنامک کونسل کے رکن کی حیثیت سے خلیجی ممالک‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور چین سمیت دیگرو ہمسایہ ممالک کی قیادتوں سے ملاقاتیں کرکے پاکستان کیلئے مالی امداد کے حصول کو ممکن بنایا۔ اب پھر انہوں نے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کیلئے حائل غلط فہمیوں یا رکاوٹوںکو دورکرکے اس عمل کو تیز کرنے کی غرض سے امریکی حکومت کی ڈپٹی سیکرٹری سے مطالبہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے 1.2 ارب ڈالر کی طے قسط کی ادائیگی کو جلد ممکن بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ بادی النظر میں چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے پاکستان کی مالی امداد کی غرض سے براہ راست کسی دوسرے ملک سے رابطہ ان کی آئینی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ ا س سے سول حکومت کی ناقص کارکردگی اور نااہلی کا اظہار ہوتا ہے کہ جس کو تمام تر کوششوں اور بھاگ دوڑکے باوجود آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔آرمی چیف کے اپنے اقدام نے سول حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھایا ہے جو سول بالادستی کی علمبردار حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کسی ایک ادارے یا سیاسی جماعت کا نہیں ہم سب کا ملک ہے اس لیے اسے مشکل سے نکالنے کی ذمہ داری بھی سب پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ اسے اپنے معاملات کو چلانے کیلئے مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر جس تیزی کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیںاور ڈالر جس رفتارکے ساتھ اوپر اڑتا جا رہا ہے۔ ہمارے لئے ادائیگیوں کا توازن قائم رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد نہ صرف پاکستان کی معیشت کو سہارا ملے گا بلکہ دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں سے بھی قرض کے حصول کی راہ ہموار ہو سکے گی اور یوں ملک کے دیوالیہ ہونے کے جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان سے نکلا جا سکے گا۔
اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان کو اس سطح تک لانے میں ہماری حکومتوں،سیاسی اشرافیہ اور باہم دست و گریباں سیاست دانوں ہی کا نمایاں کردار ہے۔ آج بھی ملک کی بگڑتی ہوئی مالی حالت کے باوجود اہل سیاست میں مفادات کے حصول اور کرسیٔ اقتدار کے لئے لڑائی جاری ہے۔ یہ محاذ آرائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انہیں معیشت کی زبوں حالی کی بھی پروا نہیں ۔ان حالات میں آرمی چیف نے پاکستان کودرپیش اقتصادی اور مالی بحرانوں سے نکالنے کیلئے بے شک فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے قو می مفاد میں ازخود آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور امریکی حکام سے رابطہ کرکے قرض کی قسط کے حصول کیلئے کوشش کی۔ جس سے یقینی طور پر پاکستان کے معاشی بحران سے نکلنے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔امریکی انتظامیہ کیلئے بھی یہ موقع ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکیج کے تسلسل کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے ۔