• news

اتوار یکم محرم الحرام، 1444ھ،31 جولائی 2022 ء

میں عوامی اور پرویز الٰہی عدالتی وزیراعلیٰ ہیں‘ حمزہ شہباز
 اس وقت صوبہ پنجاب میں جو سیاست چل رہی ہے۔ وہ سیاست کم اور میوزیکل چیئر زیادہ ہے۔ ساز بجتے ہی سب کرسی کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ جونہی ساز بند ہوتا ہے کوئی ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا آؤٹ ہو جاتا ہے۔ بیٹھنے والا سانس ہی درست کر رہا ہوتا ہے کہ پھر وہی کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ یوں ’’ تو چل میں آیا‘‘والا کھیل جاری ہو جاتا ہے۔ اتنا برا حال جو پنجاب کے لوگ اپنے صوبے کا اب دیکھ رہے ہیں۔ شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت کا عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے خاتمہ ہوا تو پنجاب کا راج سنگھاسن بھی ڈولنے لگا۔ یہاں ان کے منحرف ارکان نے اپنا وزن نون لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا تو عثمان بزدارکے بعد پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ بننے کا منصوبہ فلاپ ہوگیا۔ مگر وہ نچلے نہیں بیٹھے انہوں نے حمزہ شہباز کو امپورٹڈ وزیراعلیٰ کا خطاب دے دیا اور ان کو ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ عدلیہ کی طرف سے منحرف ارکان کو ہٹا کر ان کی جگہ ضمنی الیکشن کرانے کا فیصلہ آیا تو پی ٹی آئی والوں میں جیتنے کی امنگ پیدا ہوئی پھر اونٹ پر آخری تنکا عدالت کی طرف سے وزیراعلیٰ کے چناؤ میں پرویز الٰہی کو کامیاب قرار دینا قرارپایا یوں
 دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
 ہم وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے
حمزہ شہباز تخت پنجاب سے بے دخل ہوئے اور پرویز الٰہی کو تخت پنجاب پر بٹھا دیا گیا۔ اب امپورٹڈ وزیراعلیٰ کے طعنوں کا حساب حمزہ شہبازنے موجودہ وزیراعلیٰ کو عدالتی وزیراعلیٰ کہہ کر حساب چکتا کر دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں یہ امپورٹڈ اور عدالتی وزیراعلیٰ کے درمیان جو گھمسان کی جنگ ہورہی ہے اس میں پنجاب کا کیا حال ہوتا ہے۔
٭٭٭٭
پنجاب میں سرکاری بھرتیوں پر پابندی لگا دی گئی
شاید علامہ اقبال نے ایسے ہی حالات کے لئے کہا تھا۔ ’’ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘ اس وقت چونکہ پاکستان نہیں بنا تھا مگر اب ہم ’’مسلمانوں‘‘ کی جگہ ’’پاکستانیوں‘‘ کہہ کر موجودہ صورتحال کی عکاسی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو بھی حکمران یا حکومت آتی ہے وہ صرف عوام کو بھاشن دنیا جانتی ہے۔ ان سے قربانی طلب کرتی ہے۔ ان کے پیٹ پر لات مارتی ہے۔ ان پر روز گار اور ملازمتوں کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمت غریبوں کے لئے سب سے پرکشش کام ہوتا ہے۔ گرچہ اب یہ بھی کرپٹ رشوت خور مافیاکی بدولت غریبوں سے چھن چکا ہے مگر ادھر ادھر سے زور لگا کر قسمت آزما کر کچھ نہ کچھ حصہ غریبوں کو بھی مل جاتا ہے۔ امرا کی بات چھوڑیں مراعات یافتہ طبقات کو بھول جائیں۔ وہ اس تردد میں نہیں پڑتے۔ جہاں سفارش ہوتی وہاں سفارش اور جہاں پیسہ چلتا ہے وہاں پیسہ لگا کر وہ اپنے نکمے لونڈوں کو بھرتی کروا دیتے ہیں۔ ان پرکسی پابندی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ تو پبلک سروس کمشن تک کو زیر دام لے آتے ہیں۔ اب جو چھوٹے موٹے گریڈکی ملازمت ہوتی ہے وہ غریبوں کے حصے میں آتی ہے۔ جو بے چارے گریڈ پانچ یا بہت زور مارا تو گریڈ 11 سے اوپرکی چھلانگ لگا ہی نہیں سکتے۔ اب ان بے چاروں پر عوام کی خدمت کرنے والی حکومت نے پابندی لگا کر ملازمت کے لئے چھوٹے موٹے دروازے بند کردئیے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس لئے موجودہ حکومت پنجاب سرکاری بھرتیوں پر پابندی کا فیصلہ واپس لے۔
٭٭٭٭
لاپتہ قرار دیا جانے والا زندہ سلامت نکلا
بلوچستان جیسے حساس صوبے میں لاپتہ افرادکے نام پر جو تحریک چل رہی ہے اس میں سچائی کے ساتھ جھوٹ کی بھی اس قدر آمیزش کر دی گئی ہے کہ اب حقیقت کو تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عیاں تھی کہ لاپتہ افراد میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی مرضی سے ملک چھوڑکر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ کچھ افغانستان اور ایران فرار ہو کر پناہ گزین ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ تعداد بلوچستان میں ’’را‘‘کی فنڈنگ سے دہشتگردانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔باقی جہاں بھی ہیں بھارتی خفیہ ایجنسی والے ان کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی پردہ پوشی کرکے کچھ تنظیمیں سکیورٹی اداروں کے خلاف مہم چلا رہی ہیں اگرچہ ان اداروں کے پاس جو لوگ ہیں انہیں کچھ نہ کچھ ثبوت کے بعد ہی حراست میں لیا گیا ہے۔ مگر کچھ تنظیمیںمفروروں سمیت معذوروں اور غیرممالک میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسرکرنے والوں کو بھی لاپتہ قرار دے کر نجانے کیوں نمبر بنانے اور بھارتی فنڈنگ میں اپنا زیادہ حصہ لینے کے لئے منفی پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر زیارت بلوچستان میں دہشتگردوں نے ایک آرمی افسر اور ان کے کزن کو اغواء کر لیا۔ جب سکیورٹی فورسز نے تعاقب کیا تو انہیں مار دیا جو ابی کارروائی میں دہشت گرد مارے گئے تو ان تنظیموں نے شور مچایا کہ یہ دہشت نہیں لاپتہ افراد تھے۔ حالانکہ ویڈیوز میں دہشت گردی میں ملوث افراد کارروائی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مگرکافی شور ہوا۔ اب پتہ چلا ہے کہ ان میں ایک لاپتہ جس کو دہشت گرد بھی قرار دے کر مارنے کا شور مچایا جا رہا تھا۔ وہ صحیح سلامت زندہ ہے۔ جس نے میڈیا پر آ کر بتایا کہ اس کا کسی تنظیم سے تعلق نہیں اور نہ ہی وہ کسی ملک دشمن کارروائی میں ملوث ہے وہ بیرون ملک جاتے ہوئے ایران میں گرفتار ہواتھا۔اب رہاہوکرواپس آیاہے۔ اس کے بعد امید ہے شور مچانے والوں کو تسلی ہوگئی ہوگی۔
٭٭٭٭
سیلاب متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘ وزیراعلیٰ پنجاب
یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے کیونکہ میڈیا رپورٹس ملاحظہ فرمائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پورا پنجاب اس وقت سیلاب کی زد میں ہے‘ اور ہمارے حکمرانوں کو تاج پوشی اور تخت پوشی سے فرصت نہیں۔ ابھی تک کوئی ایم پی اے‘ ایم این اے‘سپیکر یا وزیراعلیٰ سیلاب کے ریلے میں بہنے والے انسانوں‘ جانوروں اور غریبوں کی متاع حیات کو ضائع ہوتا دیکھ کر ان کی اشک شوئی کے لئے نہیں پہنچا۔ غریب متاثرین سیلاب ٹھنڈی آہیں بھرکر کبھی زمین کی طرف کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس لئے اب بھی وقت ہے کہ حکمران سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان بے چاروں کی خبر لیں۔ آفات کو روکنا اگر ممکن نہیں تو آفات سے پھیلی تباہی سے بچاؤ کی تو صورت نکالی جا سکتی ہے۔ پنجاب سے بھی زیادہ برا حال بلوچستان کا ہوا ہے۔ وہاں حقیقت میں 
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
 وہی ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
والی کیفیت سب کے سامنے ہے۔ جو دشت و صحرا میدان اور پہاڑ سالہا سال بارش کی بوند کو ترستے تھے وہاں ابرکچھ یوں برسا کہ سارے بند بہا لے گیا۔ پورا صوبہ بری طرح متاثر ہے کوئی فصلوں کو کوئی پھلوں کو کوئی گھر بار کوئی مال مویشی کو رو رہا ہے۔ سو سے زیادہ لوگ جاں کی بازی ہار گئے ہیں۔ وہاں بھی حکومتی توجہ کی سخت ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن