معاشرے میں بگاڑ کا ذمہ دار کون؟
مکرمی! پاکستان میں معاشرہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔ نوجوان نسل بے راہ روی‘ عدم برداشت‘ نافرمانی‘ کرپشن‘ عہد شکنی‘ اعتماد کے متکبرانہ اور منافقانہ رویوں کی تمام حدیں پار کر رہی ہے۔ نشہ آور اشیاء کا ناسور تعلیمی اداروں میں داخل ہو چکا ہے جو طلباء و طالبات کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جھوٹ اور فریب کی لعنت ہمارے معاشرے میں بری طرح سرائیت کر چکی ہے۔ رواداری‘ بھائی چارے اور امن و سکون کی جگہ بے اعتنائی‘ نفرت‘ انتشار اور قتل و غارت گری نے لے لی ہے۔ ہم مسلمان قوم تو ہیں‘ لیکن ہم وہ کام کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت نام کی کوئی چیز ہم سے چھو کر بھی نہیں گزری۔ علمائے کرام جو انبیاء کرام کی میراث ہیں اور معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ بھی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنائے ہوئے ہیں۔ آجکل کا میڈیا بھی معاشرے میں بگاڑ کو ہوا دینے میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ثقافت کی آڑ میں بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے۔ رہی سی کسر ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اکابرین نے بیانات اور تقاریر نے معاشرے میں نفرت‘ تشدد‘ عدم برداشت اور مخالفین کی گھٹیا کردارکشی کے بیج کو ہوا دیکر پوری کر دی ہے۔ زبان ایسی کہ شرم و حیا کی دیوی شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ سیاستدانوں کے ایک دوسرے کیلئے حقارت آمیز رویئے اور انتقام پرستی پر مبنی ان کی شعلہ بیانی آخر معاشرے کو کیا درس دے رہی ہیں؟ میڈیا کو مادر پدر آزاد چھوڑ کر معاشرے کی بہتری کیلئے کونسی خدمت سرانجام دی جا رہی ہے؟ اگر ہم انفرادی اور من حیث القوم اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے گریابنوں میں خود جھانک کر دیکھ لیں تو ہمیں معاشرے میں بگاڑ کا ذمہ کون کا جواب بھی مل جائے گا۔ اور خوداحتسابی کے عمل میں مثبت پیش رفت بھی منظرعام پر آئے گی۔ قابل احترام علماء کرام حجروں سے باہر نکل کر میرے مرشد کے فرمودات کو عام کرنے کیلئے میدان عمل میں نکل پڑیں تو معاشرہ سدھر سکتا ہے۔(رانا ارشد علی ایم اے معاشیات و سیاسیات گجرات)