• news

میں نے پاکستان بنتے دیکھا 

میں نے تحریک پاکستان کا آخری دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ 1945-46ء کے انتخابات مجھے یاد ہیں۔ امرتسر میں شریف پورہ کے سامنے اور جی ٹی روڈ سے ملحق پاتھی گرائونڈ تھی جہاں پولنگ سٹیشن تھا۔ اس زمانے میں ہر بالغ شخص ووٹر نہیں ہوتا تھا۔ ایک خاص سطح تک کا تعلیم یافتہ فرد ووٹ دے سکتا تھا یا صاحب جائیداد شخص، اس لیے ووٹ ڈالنے والے کم ہوتے تھے اور جلوسوں میں نعرے لگانے والے زیادہ۔ جب اکا دکا ووٹر تانگے میں بیٹھ کر ووٹ ڈالنے جا رہا ہوتا تھا تو بوڑھے، جوان اور بچے تانگے کے پیچھے بھاگتے تھے۔ سبز جھنڈیاں لہرا لہرا کر ’لے کے رہیں گے پاکستان‘ اور ’بن کے رہے گا پاکستان‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ میں بھی سرکنڈے پر چھوٹی سی سبز جھنڈی چپکا لیتا اور نعرے لگاتا ہوا تانگے کا تعاقب کرتا۔ ان دنوں تحریک پاکستان پورے زور پر تھی ۔پوری قوم قیامِ پاکستان پر متفق ہو چکی تھی۔
مارچ1947ء میں امرتسر ہندو سکھ فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ ہم دربار صاحب کے قریب رہتے تھے۔ امرتسر کا آدھا شہر راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ آگ لگانے کے لیے ایسے کیمیکلز استعمال کیے جاتے تھے کہ محلے کے ایک سرے پر آگ لگتی تھی تو جب تک مکانوں کی ساری قطار راکھ نہ ہوجاتی تھی اس وقت تک آگ نہیں بجھتی تھی۔ اگر چند ایسے افراد بھی لاہور میں زندہ ہیں جنھوں نے شاہ عالمی دروازے کی دو طرفہ جلی ہوئی عمارتوں کو دیکھا ہے تو وہ امرتسر کی آتش زدگی کا تصور کر سکتے ہیں۔جون1947ء تک امرتسر کے مسلمانوں کا خیال تھا کہ امرتسر اور گورداسپور پاکستان میں آئیں گے۔ رفتہ رفتہ یہ امید مدھم پڑتی چلی گئی اور آخر اعلان ہو گیا کہ امرتسر بھارت کا حصہ ہوگا۔ 
میرا گھرانا25 اگست کو لاہور پہنچا۔فارسی کی ایک ضرب المثل ہے:’شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ‘ (سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات جیسی نہیں ہو سکتی) اس کا اطلاق پاکستان کی نئی نسلوں پر کیا جا سکتا ہے۔ انھیں چھوت چھات کا تجربہ نہیں ہوا۔ انھوں نے ہندومسلم فسادات کا مشاہدہ نہیں کیا۔ ہمارے سوشل میڈیا کے بہت سے لوگ نادانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو مسلم دشمنی افسانہ ہے۔ کاش افسانہ ہی ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ ڈھاکے میں جب جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالے تو اندرا گاندھی نے بے ساختہ کہا تھا، ’ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے!‘ یہ جملہ ہندو قوم کے اجتماعی لاشعور کا عکاس ہے۔ یہ بات ان کے ذہنوں میں موجود ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں آکر ہمیں غلام بنایا، جبراً لوگوں کا مذہب تبدیل کیا۔ اس بات میں بہت کچھ مبالغہ ہے۔ اگر اتنا جبر کیا جاتا تو ہندوستان میں ایک ہزار سال کے بعد مسلمان کی اکثریت ہونی چاہیے تھی نہ کہ ایک چوتھائی اقلیت۔

ای پیپر-دی نیشن