(قاف) لیگ سے شجاعت کی رخصتی
پاکستان اس وقت جن سیاسی اور معاشی حالات سے گزر رہا ہے۔ ملک کے تمام اداروں سمیت سب کو مال بنانے اور ایک دوسرے پر بازی لینی ہے۔ پنجاب میں اقتدار کے ہما کی جنگ 4 ماہ سے لڑی جا رہی تھی وہ اس وقت بظاہر چودھری پرویز الٰہی نے جیت لی ہے لیکن اعصابی جنگ جاری ہے اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو یہ کہتے شرم آنی چاہیے کہ صوبہ پنجاب میں گورنر راج کا نفاذ کی تیاری شروع کر دی ہے جبکہ 17 جولائی کو ہونے والے الیکشن کو پی ڈی ایم کی کرتا دھرتا مریم نواز شریف نے کھلے دل سے شکست تسلیم کر چکی ہیں لیکن نہ جانے مولانا اور رانا ثناء اللہ کو مروڑ اٹھ رہے ہیں ان کو شکست ہضم نہیں ہو رہی سپریم کورٹ کے اسی بنچ نے میاں شہباز شریف کو عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے اُتار کر بٹھایا مریم نواز نے اعتماد کیا اب اسی بنچ نے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سونپی تو مریم نواز سمیت پی ڈی ایم کے پر جل گئے کہ فل کورٹ بنائو اب لندن سے میاں نواز شریف کا پیغام آ گیا ہے میں تو اقتدار نہیں چاہتا تھا اور مریم بھی مخالف تھی اب الیکشن کی طرف بڑھنے کا اشارہ دیا جبکہ پی ڈی ایم یک زبان ہو کر بولی ہے کہ الیکشن اگست 2023ء میں ہونگے جبکہ عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے والے چودھری پرویز الٰہی کو بھی الیکشن کے بارے اعتماد میں لیا ہے جس کے جواب میں چودھری پرویز الٰہی نے اپنے زخمی دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ہے عمران خان کے حکم پر ایک منٹ میں پنجاب اسمبلی توڑ دوں گا اس وقت عمران خان پنجاب خیبر پختونخواہ ، گلگت بلتستان اور آزادی کشمیر کا حکمران ہے جبکہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی حکومت چند میلوں کے شہر اسلام آباد تک محدود ہے۔
وزیر اعظم اس بات کو سمجھتا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کو کون سمجھائے کہ پنجاب کے بعد مرکز بھی سرک رہا ہے پی ڈی ایم نعرہ لے کر آئی تھی مہنگائی کم کریں وہ بڑھ گئی۔ ڈالر کی قیمت کم کریں گے اس کو پر لگ گئے پیٹرول سستا کریں گے 100 روپے لیٹر بڑھا دیا۔ نعرہ کہاں گیا وہ سب جھوٹ تھا اصل ایجنڈا تھا نیب کا خاتمہ کر دیا۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے بغیر الیکشن وہ کام کر لیا اور تیسرا کام اور ان کا ایجنڈا تھا سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا وہ بھی کام کر لیا۔ اس طرح شریفوں زرداری اور مولانا فضل الرحمن کا ایجنڈا ختم ہو گیا۔ ملکی معیشت تباہ ہو گی بجلی اور گیس کا بحران سر چڑھ کر بول رہا ہے دن بدن بجلی اور گیس کی قیمت بڑھا کر آئی ایم ایف کی قسط پوری کی جا رہی ہے تو کیا کمال ہے شہباز شریف اور عمران خان کی حکومت میں عمران خان کی حکومت میں ملک کی تباہی کو کون روکے گا ۔
اس طرح کوئی شخص کہے کہ پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے تو شریف اور زرداری گلے پڑ جاتے ہیں جبکہ ان دونوں خاندانوں اور ان کے حواریوں کو اپنی اپنی دولت کے خزانوں سے اربوں ڈالر نکال کر ملکی خزانے میں جمع کروانے چاہئیں تاکہ پاکستان کی معیشت بحال ہو شریفوں اور زرداری نے 40 سالہ حکمرانی میں حکومت پاکستان کو میوزیکل چیئر بنا دیا اب قوم ایک ایک نوالے کو ترس رہی ہے یہ حکمران طبقہ ان دنوں بھی اربوں روپے لگا کر اقتدار کی جنگ لڑ رہا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا الیکشن ہوا سبطین خان نے 185 ووٹ لے کر میدان مار لیا اور ن لیگ کے سیف الملوک نے 175 ووٹ لیے۔
یہ خفیہ ووٹنگ تھی خریدنے کے سوداگر کرونا کے مرض میں مبتلا ہیں اور پیپلز پارٹی کا امیدوار بھی نہ تھا ممکن تھا پھر کوئی چودھری شجاعت خط لکھ دیں لیکن کامل علی آغا نے تمغہ شجاعت نہ آنے کا عندیہ اس طرح دیا کہ چودھری شجاعت اور طارق بشیر چیمہ کو عہدوں سے فارغ کر دیا ہے اور فیصلہ (قاف) لیگ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے کیا ہے کہ اب چودھری شجاعت خط نہ لکھ سکیں اور ہنگامی اجلاس مسلم لیگ ہائوس میں سینیٹر کامل علی آغا کے صدارت میں ہواا جس میں 81 ارکان نے شرکت کی اور یک زبان ہو کر چودھری شجاعت کا پتہ صاف کرنے کے بعد مرکزی صدر بننے کے لیے چودھری پرویز الٰہی کا راستہ ہموار کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے پارٹی کا عہدہ ختم کرنے پر کہا ہے مجھے تو ویسے کہتے میں عہدہ چھوڑ دیتا۔
کابل علی آغا چودھری شجاعت اور مجھے عہدوں سے فارغ نہیں کر سکتے۔ ڈپٹی سپیکر کے الیکشن میں تو ن لیگ نے راہ فرار اختیار کی جبکہ پیپلز پارٹی کے حیدر گیلانی نے ہارنے کے خوف سے پنجاب اسمبلی میں ہوتے ہوئے کاغذات نامزدگی لینے کے باوجود جمع نہ کرا کے زرداری سب پر بھاری کامیاب ہوئے اور ن لیگ کو چاروں شانے چت کر دیا اور نظریہ ضرورت کے تحت ڈپٹی سپیکر کا الیکشن نہ لڑا اور بلامقابلہ (قاف) لیگ اور پی ٹی آئی کا امیدوار جیت گیا اس طرح عمران خان کا خوف مولانا فضل الرحمن پر طاری ہوا ہے اور خواب میں بھی وہ ان کو یاد آتے ہیں اور اب الیکشن سے راہ فرار اختیار پی ڈی ایم کر رہی ہے۔
٭…٭…٭