نامعلوم اکاؤنٹس اسد قیصر، شاہ فرمان، سوری، عمران اسماعیل چلاتے رہے
اسلام آباد(عترت جعفری)الیکشن کمیشن آف پاکستا ن کے پی ٹی آئی کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلہ کی دیگر تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے ڈیکلرڈ اور نان ڈیکلرڈ اکاونٹس کے درمیان ٹرا نزیکشن پائی گئیں، جن نامعلوم اکائونٹس کا ذکر موجود ہے یہ لاہور ،اسلام آباد،کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے مختلف بینکوں میں کھولے گئے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تمام اکائونٹس ضروری لوازمات کو پورا کرکے کھولے گئے تھے اور ان کو پی ٹی آئی کے عہدے دار ہی چلا رہے تھے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ،شاہ فرمان کے ساتھ پشاور میں ایک اکائونٹ چلا رہے تھے جبکہ وہ ایک دوسرا اکاونٹ بھی چلا رہے تھے محمد اشفاق اور محسن ودود کے ہمراہ بھی چلا رہے تھے ، کوئٹہ میں قاسم خان سوری ، سید عبدالوہاب اور داود خان کے ساتھ مل کر چلا رہے تھے،عمران اسماعیل بھی کراچی میں دو اکاونٹ چلا رہے تھے ،اسلام آباد کا ایک اور اکائونٹ جو ڈیکلر نہیں کیا گیا اس کو کھولنے کی درخواست پر دستخط عمران خان ہی کے تھے اس اکاونٹ میں ایک بار 51ہزار 750ڈالرز کی رقم جمع کرائی گئی اور نکالی گئی ، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اکبر ایس بابرنے سیاسی جماعتوں کے آرڈر 2002آرٹیکل6کے تحت درخواست دائر کی ، ، حنیف عباسی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ جو پی ایل ڈی 2018میں رپورٹ ہوا تھا ان میں ممنوعہ سورس، اور فارن ایڈیڈسورس میں امتیاز قائم کیا گیا تھا اور یہ ہدایت کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی سمیت سیاسی جماعتوں کے اکائونٹس کے زیر التواء معاملہ سے قبل چھان بین کی جائے جس کی وجہ سے سکورٹنی کمیٹی بنی تھی جس نے اپنی رپورٹ کمیشن میں جمع کروائی تھی فیصلہ کے مطابق کیس میں 12سوالات مرتب کیے گئے تھے جس میں ایک کے تحت عارف مسعود نقوی کی طرف سے ووٹن کرکٹ لمیٹڈکے ذریعے فنڈز کی منتقلی کے قانونی ہونے کاجائزہ لیا گیا تھا اور جانچا گیا کہ کیا یہ ممنوعہ فنڈنگ کے ضمن میں تو نہیں آتا؟ووٹن کرکٹ لمیٹیڈ’کے مین آئس لینڈ‘‘ میں رجسٹرڈ ہے جو ٹیکس ہیون میں شمار ہوتا ہے اور پانچوں بڑا بینکنگ سنٹر ہے ، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے جانتے بوجھتے اس کمپنی کے مالک جوبزنس ٹائی کون تھے اور کریمنل فراڈ میں ملوث تھے ، چندہ لے لیا ، نقوی کے بیان حلفی میں کہا گیا کہ انہوں نے یو اے ای میں فنڈنگ جمع کی تھی جبکہ یو اے ای کے قانون کے تحت انہیں ایسا کرنے کے لیے وہاں کے قانونی ادارے سے اجازت لینا ضروری تھی ،اس طرح امریکی بیسڈ کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں سے بھی فنڈنگ لی جو پولیٹیکل پارٹی کے آرڈر 2002کے آرٹیکل 6ذیلی شق تین کی خلاف ورزی ہے ۔