پی ٹی آئی ممنو عہ فنڈنگ لی، عمران کا بیان حلفی جھو ٹا: الیکشن کمشن
اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار) الیکشن کمشن آف پاکستان نے8 سالہ طویل سماعتوں کے بعد تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ پی ٹی آئی پر غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں۔ آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے۔ جبکہ چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیر اعظم عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا ہے۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمشن کی جانب سے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون کو محفوظ کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پیر کے روز ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ منگل صبح 10 بجے سنانے کا اعلان کیا اور کاز لسٹ جاری کی۔ گزشتہ روز فیصلہ سنانے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تاخیرہو گئی۔ پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں ممبر نثار احمد درانی اور ممبر شاہ محمد جتوئی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سنایا۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی ہے اور چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا ہے اور پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی۔ الیکشن کمیشن فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کے 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جن میں امریکا، آسٹریلیا اور یو اے ای سے عطیات لیے گئے تاہم پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کے بارے میں بتانے میں ناکام رہی ہے۔ آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے، پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں، 351 کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے فنڈز لیے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ سے ممنوعہ فنڈنگ لی ہے اس کے علاوہ عارف نقوی کی کمپنی سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 امریکی ڈالرز اور یو اے ای کی کمپنی برسٹل انجنیئرنگ سروسز سے 49 ہزار 965 ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی گئی ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 سے متعلق ممنوعہ فنڈنگ ہے۔ پی ٹی آئی چئیر مین عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ جبکہ پارٹی اکاؤنٹس سے متعلق دیا گیا بیان حلفی جھوٹا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا 70 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔تحریری فیصلے میںکہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو ای پلینٹ ٹرسٹیز اور ایس ایس مارکیٹنگ کمپنیوں سے 1 لاکھ 17 ہزار سے زائد کی فنڈنگ ہوئی۔ فیصلے میں پی ٹی آئی کو یوکے سے ملنے والے 7 لاکھ 92 ہزار پاؤنڈز ، پی ٹی آئی کینیڈا سے 35 لاکھ 81 ہزار 186 روپے، آسٹریلین کمپنی انور برادرز سے ملنے والے 6 لاکھ 79 ہزار روپے ممنوعہ قرار دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں مزیدکہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے صرف 8 اکاؤنٹس ظاہر کیے تھے۔ جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی گئی تھی، وہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت چلا رہی تھی۔ پی ٹی آئی نے اپنی قیادت کے زیرانتظام چلنے والے مجموعی طور پر 16 اکاؤنٹس چھپائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ ان کے ممنوعہ فنڈز ضبط کیے جائیں، الیکشن کمیشن دفتر قانون کے مطابق باقی کارروائی بھی شروع کرے۔ الیکشن کمیشن فیصلہ کی کاپی وفاقی حکومت کو جاری کی جاتی ہے۔14 نومبر 2014 کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پا کستان تحر یک انصاف نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں۔الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، سکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، سکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔ الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، سکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، سکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک سٹیٹمنٹ سے متعلق سٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔ سکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ سٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ پا کستان تحریک انصاف نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے سکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔ یہ اکاؤنٹس اسد قیصر، شاہ فرمان ، عمران اسماعیل، محمود الرشید ، احد رشید، ثمر علی خان، سیما ضیائ، نجیب ہارون ، جہانگیر رحمان ، خالد مسعود ، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے۔ واضح رہے 21جو ن کو پی ٹی آئی ممنو عہ فنڈنگ کیس کی سما عت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی تھی اور دلائل مکمل ہونے پر 8سال بعد محفو ظ کیا تھا۔ اسلام آباد سے نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 17(3) کی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان کے سرٹیفکیٹ سٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق چھ (3) کے زمرے میں آتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پولیٹیکل پارٹیز رولز کی شق 6 کے تحت تحریک انصاف کو فنڈز ضبط کرنے کا شوکاز نوٹس جاری کیا۔