80کروڑ روپے مالیت کی گندم خراب ہونے کا اندیشہ
میاں غفار احمد
سیلاب نہیں جناب یہ تو رودکوہیوں کا پانی ہے، سیلاب تو ابھی آنا ہے۔ انہی رودکوہیوں نے پہاڑی ندی نالوں کے پانی سے دریائے سندھ کے اپر بنک میں تباہی مچا دی ہے درجنوں دیہات زیر آب ہیں۔ ڈھائی درجن سے زائد افراد کے اس پہاڑی پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور متعدد افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں جن کا انتظامیہ کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں۔ تونسہ کے علاقے شادن لْنڈ میں حکومت پنجاب کے مرکز میں پڑی گندم کی ڈھائی لاکھ بوریوں میں سے ایک لاکھ سے زائد اس پانی نے برباد کر دی ہیں جن کی کم از کم مالیت 80 کروڑ روپیہ بنتی ہے اور محکمہ خوراک کا عملہ اس بدبودار اور زہریلی گندم کو 40 بوری فی ٹرک کے حساب سے فلور ملوں کو زبردستی سپلائی کر رہا ہے اور یہ مشورہ دے رہا ہے کہ اسے فلور مل مالکان دھو کر استعمال کریں۔ وہ ایسا کریں گے تو سارے کا سارا آٹا ہی آلودہ ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ 2010ء کے سیلاب میں بھی راجن پور کے علاقے کوٹلہ مغلاں میں ضائع شدہ بدبودار گندم پنجاب کے محکمہ خوراک نے تلف کرنے کی بجائے بھینسوں کے چارے کے لئے فروخت کر دی تھی جسے سندھ اور کراچی میں فروخت کر دیا گیا تو سندھ میں ہزاروں بھینسیں اس زہریلی گندم کے کھانے سے ہلاک ہو گئی تھیں اس پر انکوائری ہوئی مگر پھر اس وقت کے ارباب اختیار کی مداخلت سے انکوائری ختم کر دی گئی۔ یاد رہے کہ ماہرین نے اس گندم کو بھی گڑھا کھود کر دفن کرنے کی سفارش کی تھی مگر محکمہ خوراک کے بے حس عملے نے اسے جانوروں کی خوراک کے لئے فروخت کر دیا تھا۔ اس مرتبہ چونکہ ’’میدان کرپشن‘‘ میں پاکستان بہت ترقی کر چکا ہے اس لئے شادن لْنڈ سنٹر کی تباہ شدہ گندم فلور ملوں کو زبردستی 40 بوری فی ٹرک کے حساب سے سپلائی کی جا رہی ہے اور ذرائع کے مطابق اب تک ہزاروں ٹرک پنجاب بھر کی فلور ملوں میں بھجوائے چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیلابی پانی کی وجہ سے گندم کا وزن بڑھ جاتا ہے اور اس میں 30 سے 40 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے یعنی 50 کلو کا گندم کا تھیلا پانی شامل ہونے پر 70 کلو وزن کا ہو جاتا ہے مگر سپلائی تو ٹرک کے وزن کے حساب سے کی جا رہی ہے لہٰذا محکمہ خوراک کے ارباب اختیار کو اس صورتحال میں 25 سے 30 ہزار روپیہ فی ٹرک آسانی سے بچ رہا ہے اور جہاں ہزاروں لوگ سیلاب سے اپنی املاک گنوا چکے ہیں وہیں محکمہ خوراک ڈیرہ غازی خان کے افسران اپنی ’’روزی حلال‘‘ کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ پنجاب کا محکمہ خوراک بہت زیادہ کمائی والا محکمہ سمجھا جاتا ہے اس لئے گزشتہ ساڑھے تین سال کے تجربے اور اعداد و شمار کی روشنی میں ایک صاحبزادے کی ان دنوں ضد یہی ہے کہ اسے محکمہ خوراک ہی کی وزارت ہی ہر صورت میں چاہئے کیونکہ اس محکمے نے انہیں انتخابی اخراجات میں اچھی خاصی مدد دی ہے۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ڈیرہ غازی خان نے بڑی کارروائی کر کے کرپشن کے الزام میں مختلف محکموں کا ریکارڈ قبضے میں لیا اور ہنگامی بنیادوں پر مقدمات درج کرکے گرفتاریاں شروع کیں مگر تمام تر کارروائیاں روک دی گئی ہیں دو انجینئر بھائی جن کی والدہ بھی محکمہ تعلیم میں آفیسر تھیں اور جن کا تعلق انتہائی لوئر مڈل کلاس سے تھا مگر اب دوران تحقیقات ان کے سوا ارب روپے کے اثاثہ جات سامنے لائے جا چکے ہیں اور ان کے پاس 12 ہیوی ٹرک، کئی کالونیاں اور کمرشل جائیدادیں جن کی مالیت سوا ارب روپے سے زائد ہے ریکارڈ پر ا چکی ہیں مگر تمام تر انکوائریاں اچانک ہی روک دی گئی ہیں اور جلد ہی ریکارڈ کی تلفی کے بعد ان دونوں انجینئر بھائیوں میں سے ایک کے خلاف مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے۔ ویسے بھی کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کبھی بھی میرٹ پر نہ ہوئی ہے اور نہ ہی کبھی ہو گی البتہ ان کی کرپشن کا ریکارڈ کسی مخالف نے بوقت ضرورت کام آئے کے ارادے سے محفوظ کر لیا ہے۔
ملتان کے حلقہ این اے 157 میں زین قریشی کی خالی ہونے والی نشست پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کو ٹکٹ دیا جا رہا ہے اور وہ ن لیگ سمیت پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار ہوں گے مگر ابھی تک مسلم لیگ کے سابق ایم این اے عبدالغفار ڈوگر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بتایا گیا ہے کہ غفار ڈوگر کو مرکز میں کوئی عہدہ دے کر راضی کیا جائے گا تاکہ وہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کی مخالفت نہ کریں تاہم پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا کیونکہ اس حلقے کو مخدوم شاہ محمود قریشی کسی طور بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے اس لئے شنید ہے کہ ان کی کراچی میں مقیم صاحبزادی اس نشست پر پی ٹی آئی کی امیدوار بن کر موروثی اور خاندانی سیاست کے خاتمے کے نعرے کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑیں گی۔