شاہ است حسین ؓ
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لازوال قربانی محض اہل اسلام کیلئے نہیں تھی بلکہ انکی شہادت کا ہدف پوری انسانیت کی فلاح تھا. امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اصولوں کی جو جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا پر یکساں مرتب ہوئے. آپکے اصول اور آپ کی قربانی جہاں اسلام کی بقا کی ضمانت ہیں وہاں بلا تفریق مذہب و ملت، علاقہ و ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی ، حقوق و فرائض کی عدائیگی، جذبہ ایثار و قربانی، عزم و ہمت کے جاویدانی پیغام بھی ہیں. یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر نے آپ کی ذات اور کردار سے برملا عقیدت کا اظہار کیا۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعرا نے حسین ابن علی کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا ہے اس میں انھوں نے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کا پیغام دیا. مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں:’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے‘‘۔ ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کا کہنا ہے کہ، حق و صداقت مرا مسلک ،ساحر ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی۔ جی بی ایڈورڈ نے لکھا ، تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے جس کو حسین(ع) کہا جاتا ہے۔ یہ محمدؐ کا نواسہ‘ لاتعداد صفات و اوصاف کا مالک ہے جس کے عظیم‘ اعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کا یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتا اور ایک ظالم حکمران کی اطاعت قبول کرلیتا تو آج محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا، وہ کبھی اس طرح کہ نہ تو قرآن ہوتا اور نہ اسلام ہوتا‘ نہ ایمان‘ نہ رحم و انصاف‘ نہ کرم و وفا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔
مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ لکھتے ہیں :قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ امام حسین(ع) کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جان دے دی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آج نہیں آذنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسین(ع) کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔سوامی شنکر اچاریہ کہتے ہیں:’’اگر حسین(ع) نہ ہوتے تو دنیا سے اسلام ختم ہوجاتا اور دنیا ہمیشہ کے لیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسین سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں۔
معروف مصنف تھامس کارلائل اپنی کتاب میں اپنا نقطہ نظریوں بیان کرتا ہے: کربلا کے المیہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتے ہیں اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنی آرزو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓکے پیغام‘ انکی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے‘‘۔ حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے یوں اظہار خیال کیا ہے ’’امام حسین ؓصداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں‘‘۔
جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کے لیے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔
مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفہ حسینیت میں یوں تلاش کرتے ہیں: زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقام نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں لکھتے ہیں : راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃ عشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حسین ابن علیؓ کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمی کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے‘ بقول خواجہ معین الدین چشتی:
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ