صوبائی حکومت کے وفاق کے ساتھ راہ رسم کے آثار
ندیم بسرا
چودھری شجاعت اور چوھدری پرویز الہی خاندان میںکس غیر اعلانیہ سیز فائر کے نتیجے میںیوں لگ رہا ہے کہ وفاق اور پنجاب کی حکومت میں اندر کھاتے کوئی سمجھوتہ شروع ہوگیا ہے۔ بظاہر پنجاب سے کسی فوری اٹھنے والی تحریک کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کی طرف سے ہلکی ہلکی سیاسی ٹکور کی جارہی ہے مگر کھل کر بات نہیں ہورہی۔انتظامی معاملات بھی فی الحال درست سمت کی طرف ہی چل رہے ہیں۔چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کی وفاق میں جانے کی درخواست کے علاوہ کسی اور بیوروکریٹس کی بے چینی نظرنہیں آتی۔چیف سیکرٹری پنجاب نہ جانے کس خوف میں مبتلا ہوئے اور وفاق جانے کی ٹھان لی۔شاید وہ وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کی جانب سے کسی انجانے خوف میں مبتلا ہوگئے ۔حالانکہ چیف سیکریٹری پنجاب کی ریٹائر منٹ میں کوئی آٹھ سے نو برس پڑے ہوئے ہیں۔لیکن ان کے فیصلے نے کئی سوال تو پیدا کردئے ہی کہ بیوروکریسی کا یوں ایک حکومت پر عدم اعتماد کرنا کیا درست اقدام ہے یا یہ کہنا پڑے گا کہ سیاست دانوں نے سیاسی ماحول اسقدر گرما دیا ہے کہ افسران پوسٹینگز لینے سے قبل شش و پنچ کا شکار ہیں۔کیا۔پنجاب میں سیکرٹریز سمیت پولیس کی انتظامی پوسٹوں پر وسیع تبدیلیوں کا رہلہ آنے والا ہے جس میں بڑے بڑے افسران کو کھڈے لائن لگایا جاسکتا ہے۔وزیراعلی پنجاب ایک زیرک سیاست دان ہے وہ پی ٹی آئی کے وزیروں کو بھی چوائس دینگے کہ وہ اپنے من پسند افسران کے ساتھ کام کریں ۔یہ فطری عمل ہے ہر اتحادی حکومت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔لیکن ایسا سلسلہ ستمبر 2023 تک تو نہیں چل سکتا۔ وفاق اور پنجاب میں کہیں نہ کہیں اور کسی موقع پر توپھڈا ہوسکتا ہے وہیں سے ٹرننگ پوائنٹ شروع پوگا۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کی لمبی خاموشی پر کئی باتیں ہورہی ہیں۔حمزہ شہباز کے دورہ لندن کے بعد کیا کوئی نئی حکمت عملی سامنے آئے گی۔مسلم لیگ ن کی پنجاب کی قیادت کو تو آئندہ کی کسی بھی حکمت عملی بارے آگاہ نہیں کیا گیا کہ جماعت کی آئندہ کیا حکمت عملی ہوگی ۔اگر معاملات یوں ہی چلتے رہے اور ن لیگ نے اپنا سیاسی منشور ابھی سے عوام کے سامنے نہ دیا تو "ووٹ کو عزت دو " کا بیانیہ ایک بار پھر اثر کھو بھی سکتا ہے،کیونکہ ضمنی انتخاب میں ایسا ہواہے۔ اس لئے کسی بڑی تیاری کے ساتھ الیکشن میں اترنا مخالف فریق کے لئے ایک آسان ہدف ہی ہوگا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے پنجاب میں اثرات ایک بار پھر ماند پڑگئے ہیں۔ جبکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کو سیاسی مرکز بنانے کا عزم کیا ہوا ہے۔اس منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی ایک مرکزی سیکرٹریٹ لاہور شہر کے اندر بنارہی ہے جس کا مقصد لاہور شہر کے اندر سیاسی سرگرمیاں بحال کرنا ہے اس کے لئے لاہور گلبرگ یا نہر کے اطراف میں چار بڑے گھر خریدے جارہے ہیں اس پر کام جاری ہے۔پیپلز پارٹی پنجاب میں تیزی سے سیاسی منظر نامے پر آنا چاہتی ہے اسی لئے پی ڈی ایم میں شمولیت اختیار کی اور ن لیگ کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی بنایا مگر پنجاب میں حکومت ختم ہوتے ہی پیپلز پارٹی کی امیدیں ماند پڑگئیں ۔