ماضی میں کئی شخصیات پر بغاوت کے مقدمے بنے‘ چند کو سزائیں بھی ہوئیں
اسلام آباد (رپورٹ: رانا فرحان اسلم) شہباز گل پاکستان کی پہلی سیاسی شخصیت نہیں ہیں جن کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہوں، ملکی سیاسی تاریخ میں چند شخصیات کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں۔ تاہم راولپنڈی سازش کیس، اگرتلہ سازش کیس، حیدرآباد ٹریبیونل اور اٹک سازش کیس ان میں نمایاں ہیں۔ فروری 1951ءمیں 13فوجی افسروں اور چار سویلین افراد کو جن میں میجر جنرل اکبر خان، شاعر فیض احمد فیض اور کمیونسٹ رہنما میجر اسحاق نمایاں تھے ریاست کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا جو بعد میں راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ 15جون 1951ءکو اس مقدمہ کی سماعت حیدر آباد سینٹرل جیل میں شروع ہوئی جو ڈھائی سال تک جاری رہی۔ جسٹس محمد شریف نے اس سازش کے مرکزی کردار میجر جنرل اکبر خان کو 12سال قید کی سزا سنائی، دوسرے تمام فوجی افسروں کو بھی سزا سنائی گئی۔ 1955ءمیں لاہور ہائی کورٹ نے اپیل میں انہیں بری کر دیا تو چند گھنٹوں بعد انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا لیکن بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔18 اپریل1968 ءکو عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو جنرل ایوب خان کے حکم پر گرفتار کیا گیا اور بعدازاں35 افراد پر مسلح بغاوت سے پاکستان کو اس کے ایک حصہ سے محروم کرنے کی سازش کا الزام لگایا گیا، تین اگست 1971ءکو شیخ مجیب الرحمان کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا اور فیصل آباد کی ایک جیل میں ججوں کے ایک پینل نے مجیب الرحمن مقدمہ کی سماعت شروع کی ‘ ایک اور اٹک سازش کیس صدر جنرل ضیاءالحق کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے جب جنوری 1984 ءمیں 14فوجی افسروں اور تین سویلینز پر جن میں وکیل رضا کاظم نمایاں تھے، پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا گیا اور انہیں اٹک قلعہ میں قید کیا گیا‘ جولائی 1985ءکو12 ملزموں کو عدم ثبوت کی بناءپر بری کر دیا گیا جبکہ تین ملزموں کو سزا سنائی گئی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف پولیس نے 2020ءمیں بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کے درجن بھر رہنماو¿ں کے خلاف درج اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے فوجی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی جاوید لطیف کے خلاف بھی اداروں کو برا بھلا کہنے اور نفرت پر مبنی بیانات دینے کے الزام پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ سابق ممبر قومی اسمبلی جاوید ہاشمی بھی 2003ءمیں اسی طرح خبروں کا مرکز بنے تھے۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک خط پڑھا اور صحافیوں میں تقسیم کیا تھا اور جاوید ہاشمی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور ان کے خلاف بغاوت اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
بغاوت کے مقدمے