• news

ایک حقیقت

آج کے دن آزادی پانے والے کئی خاندان اپنے رب تعالیٰ کے پاس حاضر ہو چکے ہیں۔ اُن کے ساتھ ہونے والے حادثات اور واقعات سے کتابیں بھریں پڑی ہیں۔ آزادی کی نعمت کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جو ہندوستان میں اپنے پالتو جانوروں کی رسیاں کھول کر پرندوں کو آزاد کر کے پھر اپنے سامنے مسلمانوں پر ظلم ہوتا دیکھ کر بچ جانے والے اپنے وطن پیارے پاکستان میں داخل ہوئے۔ 
قارئین کی نذر ایک ایسے باوقار خاندان کی داستان اپنی بچپن کی سہیلی کی والدہ سلیمہ اسحاق کی زبانی (چند ماہ قبل سلیمہ صاحبہ انتقال فرما گئی ہیں) لکھ رہی ہوں۔ امرتسر کے تین گائوں تھے جن میں ایک ’’محلاں والا‘‘ گائوں مشہور تھا اس میں میرا گائوں بھی شامل تھا جو کہ امیر کبیر لوگوں کا علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ اس میں باوقار شخصیت شیخ فضل دین (سلیمہ اسحاق) کے دادا سربراہ تھے جو پیشہ کے لحاظ سے تاجر تھے۔ انہوں نے جموں کشمیر میں عالی شان بنگلے بنوائے اور تمام خاندان کو یہاں ٹھہرایا۔ یہ فیملی 1947ء سے تقریباً 14 سال جموں کشمیر میں ریاست میں آباد تھی۔ خدا کے نیک بندے نے بچے بچیوں کے لیے قرآن پاک کی تعلیم دلوانے کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔ ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ سے ذاتی مراسم کی وجہ سے فضل دین مرحوم کے خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ فضل دین مرحوم نے دو شادیاں کیں کثیر اولاد نہایت وجیہہ شکل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ فیملی جن میں سے شیخ محمد اقبال اور شیخ افضل کو گورنمنٹ کالج لاہور (یونیورسٹی) میں داخلہ دلوایا۔ شیخ محمد اقبال سیالکوٹ میں اسٹیبلشمنٹ کمشنر تعینات ہوئے ان کے بیٹے ندیم اقبال سیالکوٹ میں چیمبرز آف کامرس کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ سلیمہ اسحاق چھ ماہ کی تھی کہ والدہ دنیا سے رخصت ہو گئی سلیمہ اسحاق کی پرورش فضل دین نے کی۔ خدا کا کرنا ایسا تھا ہندوستان میں فسادات شروع ہو گئے۔ فضل دین کے ایک بیٹے شیخ رشید قائد اعظم سے والہانہ محبت رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے سرگرم رکن ہونے کی بنا پر مسلم لیگ کا جلسہ کبھی شیخ رشید اور کبھی شورش کشمیری کے گھر ہوتا۔ 
فضل دین کے بیٹے شیخ رشید نے تمام عمر شادی نہیں کی بلکہ اپنے خاندان اور بھائیوں بہنوں کی اولاد کو اپنا سمجھا۔ شیخ رشید ریاست جموں کشمیر کے کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ ریاست کے مہاراجہ سے ذاتی تعلقات ہونے کی بنا پر انہیں شاہی دربار کے شاہی لباس اور تلوار سے نوازا گیا۔ قدرت نے شیخ خاندان  کے جذبہ ایمانی کا امتحان لینے کے لیے 26 جون 1948ء کو کڑی آزمائش میں ڈال دیا اس خاندان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہیں بے سرو سامان کی حالت میں جموں کشمیر چھوڑنا پڑے گا۔ شیخ رشید سخت علیل ہونے کی بنا پر چلنے سے قاصر تھے لہٰذا اُن کے بھائی اسلم نے اپنے بیمار بھائی کو کندھے پر بٹھایا اور گھر کے دیگر افراد سر پر کفن باندھ کر 26 بسوں کے قافلے کی طرف روانہ ہو گئے اتنے میں غدار دشمن کو مخبری ہو گئی کہ شیخ رشید اس قافلے میں ہیں اور بسوں میں ہونگے لیکن ذی شعور خاندان نے فیصلہ بدل لیا اور ایک گھنے جنگل میں چلے گئے اسلم صاحب جو کہ تھکن کر چُور ہو چکے تھے بھائی کو کندھے سے اتار کر جنگل کی اوڑھ میں چھپا دیا اور کہا کہ میں خواتین کو کہیں محفوظ کر لوں۔ چنانچہ خواتین کو سمجھایا گیا کہ تم اپنے دوپٹوں کی پگڑیاں باندھو تاکہ دشمن دھوکہ کھا جائے کہ یہ مرد ہیں جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے جب اسلم صاحب رشید صاحب کے پاس پہنچے تو دشمن انہیں شہد کر چکے تھے ادھر سے 26 بسوں کو اس لیے آگ لگا دی کہ کسی ایک بس میں رشید صاحب سوار ہیں۔ 
ہندوئوں سے چھپتے چھپاتے شیخ صاحب کا خاندان اپنے سفر پر گامزن ہو گیا سب کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے غم سے نڈھال لیکن بلند حوصلے کے مالک سیالکوٹ پہنچ گئے لیکن رشید صاحب کی بھتیجی فہمیدہ اس کا خاوند اور چھ ماہ کی بچی بچھڑ گئے۔ شیخ خاندان کو اس فیملی کی تلاش میں ریاست جموں کشمیر جانا پڑا وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہ فہمیدہ نے اپنی آبرو کی خاطر دریائے توی میں چھلانگ لگا دی۔ شیخ خاندان کی ایک اور بھتیجی جو قافلہ سے بچھڑ گئی اُس کو ڈھونڈنے کے لیے ریاست دوبارہ گئے اس فیملی سے بچہ بچہ واقف تھا پتہ چلا کہ ایک سردار جی جو بے اولاد ہیں کی کنیز رشیدہ کو اپنے ہمراہ سردار جی کے پاس لے گئی ہے۔ شیخ فیملی جب سردار جی کے پاس گئی تو رشیدہ وہاں رہ رہی تھی رشیدہ نے اپنے چچائوں کو دیکھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ سب کے گلے ملی۔ 
سردار جی نے رشیدہ سے رائے پوچھی رشیدہ نے سردار جی کی تعریف کرتے ہوئے چچائوں کے ساتھ جانے کی اجازت لی۔ اس طرح سردار جی نے پروفیسر رشید صاحب کی امانت واپس کر دی۔ انہیں دنوں لاہور کے کسی اخبار میں یہ خبر ’’جب جموں کشمیر جل رہاتھا‘‘ لگائی اور ساتھ ہی پروفیسر رشید مسلم لیگ کے کارکن اور قائدِ اعظم کے ساتھی کے شہید ہونے کی خبر مع تصویر شائع ہوئی۔ 

ای پیپر-دی نیشن