سرمایہ کاری میں رکاوٹیں فوری دور کی جا ئیں : وزیر اعظم
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بیرونی سرمایہ کار کمپنیوں بالخصوص گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی قائم کر دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کیا جائے۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی زیرِ صدارت سرمایہ کاری پر اجلاس سے خطاب میں کیا۔ وفاقی وزرا مفتاح اسماعیل، چوہدری سالک حسین، احسن اقبال، معاونین خصوصی طارق فاطمی، ظفرالدین محمود اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کمیٹی کو دس دن کے اندر تفصیلی رپورٹ اور سفارشات مرتب کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ چینی سرمایہ کار کمپنیوں کو ترجیحی بنیادوں پر سہولت فراہم کی جائے۔ چینی ورکرز کے ویزا کے حصول میں تمام رکاوٹوں کو فوری حل کیا جائے۔ چینی ورکرز کے ویزا میں سی پیک اور دوسری کمپنیوں کے ورکرز کی تفریق ختم کرکے ویزا کے طریقہ کار کو سہل اور تیز کیا جائے۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو توانائی، انفراسٹرکچر، ریلوے، پورٹ انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں فوری طور پر 1 سے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ اس کے علاوہ ان منصوبوں سے نہ صرف 45 ہزار سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ پاکستان کے Ease of Doing Business Index میں بہتری آئے گی۔ وزیرِ اعظم نے فوری طور پر ان منصوبوں پر سرمایہ کاری بورڈ، وزارت منصوبہ بندی اور وزارت خزانہ کو باہمی تعاون سے ایک جامع پلان مرتب کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ شہبازشریف نے مصر کے شہر غزہ میں ابوسفین چرچ میں آتشزدگی کے المناک واقعہ میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ پاکستان کے عوام کی طرف سے سوگوار خاندانوں کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔ دوسری جانب وزیرِ اعظم نے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو 3 دن کے اندر 50 ہزار روپے فی خاندان امداد فراہم کرنے کی ہدایات کردیں۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے ہدایت دی ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں تمام متاثرہ گھرانوں کو 30 ہزار کے بجائے 50 ہزار روپے فوری طور پر فراہم کیے جائیں، متاثرہ خاندانوں کو 50 ہزار نقد این ڈی ایم اے کی سرپرستی میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت فراہم کیے جائیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ متاثرین کو امداد کی فراہمی کے طریقہ کار کو شفاف رکھا جائے، کیش امداد کی فراہمی الیکٹرانک ٹرانسفر کے ذریعے کی جائے اور یقینی بنایا جائے کہ حق دار کو اس کا حق ملے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ سیلاب کے نقصانات کے تخمینے کے لیے صوبوں کے ساتھ مشترکہ سروے کو 5 کے بجائے 3 ہفتوں میں مکمل کیا جائے، صوبائی حکومتیں سیلاب متاثرین کی بروقت امداد کے لیے این ڈی ایم اے سے جلد از جلد مشترکہ سروے سے متعلق تعاون اور تاریخوں کے حوالے سے رابطہ یقینی بنائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ صوبائی حکومتوں کی صوابدید ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی سیلاب متاثرین کے لیے امدادی کوششوں کا حصہ بنیں۔ تاہم وفاقی حکومت اپنے وسائل سے سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کو یقینی بنائے گی۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات اس حوالے سے آگاہی مہم کے لیے جامع پلان مرتب کرے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ خوردنی تیل، گندم، کپاس، ایگریکلچر فنانسنگ، زرعی ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کی بحالی اور زرعی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، کلائمیٹ سمارٹ ایگریکلچر اور واٹر مینجمنٹ کے حوالے سے ورکنگ گروپ قائم کئے جائیں۔ وزیرِ اعظم نے زراعت کے شعبے کے مسائل کے حل اور اس کی استعداد بڑھانے کے حوالے سے آٹھ ورکنگ گروپس بنانے کی ہدایت کی۔ شہباز شریف کی زیر صدارت ایگری کلچر ٹاسک فورس کے اجلاس میں ایگری کلچر ٹاسک فورس کی جانب سے ملک میں زراعت خصوصا گندم، خورنی تیل کے بیج اور کپاس کی کاشت کی استعداد، مسائل اور ان مسائل کے حل کی تجاویز کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیرِ اعظم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اسی لیے حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ماضی میں زراعت جسے اہم شعبے کی نظر انداز کیا گیا یہی وجہ ہے کہ جن فصلوں میں ہم خود کفیل تھے انہیں آج درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ علاوہ ازیں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کو غربت سے نجات دلانے کی بجائے سیاسی جماعتیں باہم متصادم ہیں، آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کیلئے ہمیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ معروف برطانوی جریدے اکانومسٹ میں اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا کہ بدقسمتی سے ہمارا سیاسی ماحول بری طرح منقسم ہو رہا ہے، پاکستان 60 کی دہائی میں مثبت سمت میں گامزن تھا، 60 کی دہائی میں پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کی تیاری کررہا تھا، 2022 میں ہم خود کو معاشی بحران میں پھنساہوا پارہے ہیں، عالمی برادری اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے، ایک طرف اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں کا چیلنج درپیش ہے۔ دوسری طرف امریکا کو تاریخی مالیاتی خسارے جبکہ یورپ کو جنگ کا سامنا ہے، تین نمایاں مسائل کے باعث ہماری ترقی کا سفر رک گیا ہے، ترقی کے اہم عناصر تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے پر خاطرخواہ رقم خرچ نہیں کی گئی۔ پاکستان کو غیرذمہ دارانہ بھارتی رویے اور افغان مہاجرین جیسی مشکلات بھی درپیش ہیں، عالمی سطح پر مواقع میں کمی سے بھی ہماری مشکلات بڑھی ہیں، پاکستانی کمپنیاں مسابقتی فضا میں کام کرنے کی بجائے مقامی سطح تک محدود ہیں۔ پاکستان کل پیداوار کا 15 فیصد سرمایہ کاری جبکہ 10 فیصد برآمدات پر خرچ کرتا ہے، پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، یہ اعدادو شمار ہمارے معاشی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاکستان 75 برس کا ہوگیا ہے، اب ہمیں سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہیے، پاکستان دنیا کا 5واں بڑا ملک ہے جہاں ہر 3 میں سے 2 افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے، پاکستانی شہریوں کی سالانہ فی کس آمدن 1798ڈالر ہے، ہماری آبادی کے ہر تیسرے فرد کی یومیہ آمدن 3.20ڈالر سے بھی کم ہے۔ پاکستان کی ایک چوتھائی سے بھی کم خواتین گھر سے باہرکام کرتی ہیں، ہماری آبادی کا ایک تہائی حصہ مکمل ناخواندہ ہے، موجودہ معاشی بحران سے نکلنا ہماری اولین ترجیح ہے، 2022 صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے مشکل سال ہے، عوامی خدمات کے بدلے میں لوگوں کو ٹیکسوں میں اپنا مناسب حصہ ڈالنا ہوگا، یقین ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد ہمارے لئے محفوظ راستہ ہے، درپیش چیلنجز ہمارے لئے مواقع بھی فراہم کررہے ہیں۔ اگر ہم بنیادی مسائل پر قابو پالیں تو قسمت بدلنے میں کوئی مشکل نہیں، جمہوریت میں ہمیشہ سیاسی اختلافات ہوتے ہیں، اختلافات کے ساتھ کچھ اصولوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں مالی معاملات، انسانی وسائل ، میرٹ کی بالادستی اور امن پر متفقہ لائحہ عمل اپنانا چاہئے، پنجاب سپیڈ کے بعد ہم پاکستان سپیڈکے ساتھ آگے بڑھیں گے، اتحاد اور نظم و ضبط کے ساتھ پاکستان 100ویں سالگرہ پر مختلف ملک ہوگا۔ شہباز شریف نے بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد کو تعریفی پیغام میں کہا ہے کہ والد اور دیگر اہلخانہ کی برسی پر آپ اور بنگلہ دیشی عوام سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ اللہ انہیں اور آپ کے دیگر اہلخانہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ سوگ کے اس موقع پر آپ سب ہماری دعاؤں میں ہیں۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کی کمیٹی قائمہ برائے قانون و انصاف نے بیرونی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے قانون میں ترمیم کی منظوری کر لی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی گئی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ بل کا مقصد ملک میں سرمایہ کاری بڑھانا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری پر نیب کو لگا دیں ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ سی پیک معاہدہ بھی کسی کو نہیں دکھایا گیا، ملک کے ساتھ ملک کا معاہدہ سربمہر ہوتا ہے۔ آئل ریفائنری اور گوادر میں بیرونی سرمایہ کاری آ سکتی ہے، ہم نے قانون کا مسودہ بنانے سے قبل 20 ممالک کے قوانین کا موازنہ کیا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا ہے کہ دبئی ریگستان تھا سرمایہ کاری کے ذریعے دبئی نے ترقی کی، قانون سازی نہ ہونے کے سبب ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔ سرمایہ کاری کے منصوبوں کو سول کورٹس میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ جے یو آئی نے بل کی 3 سیکشنز پر اعتراض کر دیا۔ وفاقی وزیر قانون نے بل پر اٹھائے گئے اعتراضات پر وضات کی۔ وزیر قانون نے کہا یہ قانون معاہدوں میں شفافیت لائے گا اور بین الاقوامی اعتماد سازی ہوگی۔ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کا اختیار موجود رہے گا ۔