پولیو ٹیم پر حملوں کا تسلسل
خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں پولیو ٹیم پر حملے کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملہ کوٹ اعظم کے قریب کچہ گرہ میں کیا گیا۔ ملزم فرار ہوگئے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیو ورکرز پر حملہ کرنیوالے قوم کے بچوں کو معذور بنانا چاہتے ہیں۔ قوم کے بچوں کی صحت کے دشمنوں کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔
پولیو کی خطرناک بیماری سے بچائو کیلئے حفاظتی قطرے پلانے کا کام برسوں سے جاری ہے جسے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی امداد و اعانت حاصل ہے جس کے تحت خصوصی مہم کے طور پر ہیلتھ ورکرز یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اس موذی بیماری سے بچائو اور روک تھام کیلئے سال بھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ملک کے دور افتادہ علاقوں میں پولیو ٹیموں پر حملوں کی اطلاعات بھی وقتاً فوقتاً میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی ہیں۔ یہ درحقیقت اس منفی پراپیگنڈا کا نتیجہ اور ردعمل ہے جس میں ہمارے ناخواندہ لوگوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پولیو کے قطرے درحقیقت انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کی مغربی سازش ہے اس لئے اس قسم کے قطرے پلانے والوں کو اس عمل سے جبراً روکا جائے۔چنانچہ انتہاپسند اس منفی پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر پولیو ٹیموں کو نشانہ بناتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران پولیو ٹیم پر ہونیوالے دہشت گردوں کے حملے پر ایک ہی سٹیریو ٹائپ بیان جاری کردیتے ہیں کہ بچوں کی صحت کے دشمنوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ اور یوں وہ اپنے طور پر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی بیان بازی سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی کارروائیوں کی روک تھام کیلئے ایک تو کمیونٹی میں انسداد پولیو ویکسین کے بارے میں غلط پراپیگنڈے کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے مقامی سکول اساتذہ اور آئمہ مساجد کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دوسرے پولیو ٹیموں پر حملہ کرنیوالوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی اور مثالی سزائیں دی جانی چاہئیںتاکہ دوبارہ کسی کو اس قسم کے غیرقانونی اقدام کی جرأت نہ ہوسکے۔