علی گڑھ یونیورسٹی اور بھارت میں انتہا پسندی کا نیا رخ
بھارت میں نریندر مودی کے 2014ء میں وزیراعظم بننے کے بعد سے انتہا پسندی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے بھارت میں نظریاتی شدت پسندی کی وہ شکل نہیں پائی جاتی تھی جو اب دکھائی دے رہی ہے۔ 30 جنوری 1948ء کو نتھورام گوڈسے کے ہاتھوں موہن داس کرم چند گاندھی کا قتل اس امر کی صداقت کا شاہد ہے کہ بھارت میں انتہا پسندی کی تاریخ طویل ہے تاہم نریندر مودی کی وجہ سے اس سلسلے کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ہے جس نے اسے ایک نیا رخ دیا ہے۔ اسی لیے بالعموم بھارت کی تمام اقلیتیں اور بالخصوص مسلمان انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں اور ملک کے ہر گوشے سے ناخوشگوار خبریں ایک تواتر سے آتی رہتی ہیں۔ ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے داد رسی نہ ہونے کی وجہ سے بھارت میں ایک ایسی صورتحال نے جنم لیا ہے جس کا مداوا مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
انتہا پسندی کے جس نئے رخ نے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اسی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اب انتہا پسند افراد جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں پر بھی اپنی مرضی اور منشا تھوپ کر ان کو اپنے نظریات کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں مادھو کشور نامی شدت پسند سماجی کارکن نے اپنے ہم خیال ماہرینِ تعلیم کے ساتھ مل کر نریندر مودی کو ایک خط لکھا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ علی گڑھ یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی سمیت ایسی تمام جامعات کے نصابات میں تبدیلی کی جائے جو سرکاری وسائل سے چل رہی ہیں۔ تبدیلی کے اس مطالبے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ان جامعات کے نصاب سے سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں نکالی جائیں۔ بی بی سی اردو کے مطابق، خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ’مودودی کا تعلق اسلامی بنیاد پرستی سے ہے اور انھیں اور ان کے جیسے دیگر علماء کو مرکزی یونیورسٹیوں کے نصاب میں نہیں پڑھایا جانا چاہیے۔‘
علی گڑھ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس خط کے بارے میں پتا چلتے ہی اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ سید مودودی اور مصری مفکر سید قطب کی کتابوں کو نصاب سے نکال دیا جائے۔ اگر فیصلہ صرف اسی حد تک ہوتا تو شاید اس کا کوئی جواز تراشا جاسکتا تھا لیکن اس فیصلے کا اگلا حصہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامیات میں ایم اے کی سطح پر نصاب میں سناتن دھرم (ہندومت) سے متعلق ایک کورس شامل کردیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے ترجمان عمر سلیم پیرزادہ نے اس فیصلے کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو بتاتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ آتے ہیں اس لیے مذکورہ کورس متعارف کرایا گیا ہے۔ ترجمان موصوف اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یونیورسٹی میں دینیات (Theology) کے دو شعبے، سنّی اور شیعہ، موجود ہیں اور دونوں کے نصاب میں سناتن دھرم سے متعلق کورس پہلے سے پڑھایا جارہا ہے، لہٰذا شعبۂ اسلامیات میں اس کورس کو متعارف کرائے جانے پر تشویش پیدا ہونا فطری بات ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ کورس ایک ایسے وقت میں متعارف کرایا گیا ہے جب یونیورسٹی انتظامیہ نے انتہا پسندوں کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ایم اے اسلامیات کے نصاب میں تبدیلی کی ہے۔
اگر بھارت میں سرکاری آشیرباد سے چلنے والی انتہا پسندی کی حالیہ لہر اپنی موجودہ شکل میں نہ چل رہی ہوتی تو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نصاب سے سید مودودی اور ان جیسے نظریات رکھنے والے دیگر علماء کی کتابوں کو نصاب سے نکالنا ایک معمول کی کارروائی ہوتی لیکن اس واقعے کو ماضی قریب کے کچھ اور واقعات سے جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت میں انتہا پسند معاشرے کے ہر حصے کو کیسے اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں جب مئی 2018ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے علی گڑھ سے رکن پارلیمان ستیش گوتم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ یونین ہال میں لگی قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر سے متعلق سوال اٹھا کر مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ یہ تصویر اسّی سال پہلے 1938ء میں اس جگہ لگائی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 1920ء میں جب یونیورسٹی کورٹ بنی تھی تو قائداعظم اس کے بانی رکن تھے اور انھوں نے اس کے لیے چندہ بھی دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ستیش گوتم 2018ء سے پہلے خود اس یونیورسٹی کورٹ کے رکن رہ چکے تھے اور تب انھوں نے اس تصویر سے متعلق سوال نہیں اٹھایا تھا لیکن انھوں نے یہ بات عین اس وقت چھیڑی جب انتخابات ہونے والے تھے۔
علی گڑھ میں سرسید احمد خان کا قائم کردہ ادارہ جو ان کی وفات کے بعد یونیورسٹی بنا بھارت میں انتہاپسند نظریات کے حامل افراد کو بہت چبھتا ہے اور اس کی ایک وجہ شاید اس ادارے کا نام بھی ہے۔ اسی لیے کبھی تو اس ادارے پر مختلف طرح کے اعتراضات کیے جاتے ہیں اور کبھی مطالبات کے ذریعے یونیورسٹی انتظامیہ کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں یونیورسٹی کی لائبریری کے باہر ہندو دیوی سرسوتی کا مجسمہ نصب کرنے اور یونیورسٹی میں مندر کی تعمیر کے مطالبات اس کی مثال ہیں۔ بھارت میں مودی سرکار انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے کر جو کچھ کر اور کروا رہی ہے اس پر دنیا کے مختلف ممالک اور اداروں کی طرف سے تشویش کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس کارروائی کبھی بھی نہیں کی گئی اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت سوا ارب سے زائد آبادی کی ایک ایسی منڈی ہے جس کی ناراضی مول لینا سرمایہ داریت کے حامیوں اور محافظوں کو کسی بھی طرح گوارا نہیں ہوسکتا، لہٰذا وہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر صرف کھوکھلے نعرے ہی لگاسکتے ہیں!