• news
  • image

آسمانِ ادب کا اختر شمار

یہ 80ء کی دہائی کا ذکر ہے جب حسن آباد سے اختر شمار،جلیل آباد کالونی سے رضی الدین رضی، علی منزل چاہ بوہڑ والا سے شاکر حسین شاکر، قدیر آباد سے اطہر ناسک اور ظفر اقبال ظفر اور چوک کمہاراں سے خالد اقبال خالد اور شفیق آصف میرے کینٹ سے نزدیک گھر کی بیٹھک میں آ کر ادبی پڑاؤ ڈالتے تھے یہ وہ دور تھا جب سٹیٹس اور سٹیٹس کو کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا تھا اور نہ دور تک اس کا کوئی نام و نشان تھا یہی وہی دور تھا جب نواں شہر کے بابا ہوٹل میں حیدر گردیزی، اقبال ارشد، ارشد ملتانی اور دیگر قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کی باتوں ادبی معرکوں اور شاعری سے متاثر ہو کر نوجوانوں نے مختلف ادبی تنظیموں کی داغ بیل ڈالی اور ادب کے میدان میں پر پرزے نکالنا شروع کئے تھے۔ بہت سی ادبی تنظیمیں معرض وجود میں آئیں۔ ادبی مذاکرے اور مشاعروں کی ابتداء ہوئی ممتاز شاعر ممتاز العشیی کے فرزند ارجمند وسیم ممتاز نے وکالت کے ساتھ شعری محافل سجانی شروع کیں  جن کی کتابیں آ چکی تھیں ان کے حوالے سے تقاریب کا انعقاد ہوتا اور یوں دبستان ملتان میں ادب کی ٹھنڈی ٹھار ہوائیں چلنے کا دور شروع ہوا۔
رضی الدین رضی نے سنگ میل کے ذریعے اپنے ساتھ ساتھ بہت سے دوستوں کو بھی ادبی منزل کی طرف رواں دواں رکھا۔ اطہر ناسک، یامین شہزاد اور ظفر اقبال ظفر کے ساتھ مل کر ہم نے ملتان میں بچوں کے گلاب کھلائے۔ رضی، شاکر نسیم شاہد اور شوکت اشفاق کے ساتھ مل کر ہم نے دھوپ کی تمارتوں میں سائبان کا ادبی سایہ فراہم کیا جس میں منیر نیازی کے خاص نمبر کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی امجد اسلام امجد عطا الحق قاسمی تحسین فراقی اور رحیم گل کی نگارشات شائع ہوئیں شاکر اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر کئی علمی و ادبی تقاریب برپا کیں جن کی بازگشت آج بھی دبستان ملتان میں سنائی دیتی ہے۔ ہمارے قبیلے اور دور کے انہی نوجوانوں میں ایک نوجوان اختر شمار بھی شامل تھا جو اوائل عمر سے ہی ایک توانا لہجے کا شاعر دکھائی دیتا تھا اختر شمار نے نوازش علی ندیم کے ساتھ مل کر کئی ادبی معرکے سر کئے بہت سی تقاریب بھی منعقد کیں بی اے تک اختر شمار ملتان ہی میں مقیم رہا پولیس کے محکمے میں بھی رہا پھر بہاولپور سے ہوتا ہوا لاہور جا پہنچا جہاں اسنے اپنے قدم جمانے اور ادبی ڈیرے آباد کرنا شروع کئے بعض ادیبوں اور حلقوں کی طرف سے تنگ آ کر اس نے بجنگ آمد کی داغ بیل ڈالی جو ایک ادبی اخبار ہونے کے ناطے شعری و ادبی حلقوں میں خاصا مقبول اور مشہور ہوا۔
لاہور آ کر اختر شمار استاد کے منصب پر فائزہو گیا لیکن اس نے اپنے اساتذہ کا ہمیشہ احترام کیا اور انہیں یاد رکھا۔ کبیروالا کے استاد شاعر جناب ڈاکٹر بیدل حیدری سے ان کا تعلق ہمیشہ مثالی رہا ہے اختر شمار ایک سیلف میڈ انسان تھا جس نے اپنی محنت اور صلاحیت سے اپنا ایک خاص مقام بنایا اس کے اندر ایک صوفی بھی چھپا ہوا تھا عشق درویش اور جی بسم اللہ  اس کی قابل ذکر تصانیف ہیں شعری کلیات اختر شماریاں کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اختر شمار دوستوں کا دوست تھا لاہور کے ادبی مراکز اور مشاعروں میں وہ ہمیشہ نمایاں رہا اختر شمار ایک قد آور شخصیت کا مالک تھا جوان رعنا تھا۔ تارے شمار کرنے والا شاعر خود بہت سی آنکھوں کا تارا اور راج دلارا تھا۔ اکادمی ادبیات کی اکثر ادبی کانفرنسوں میں اختر شمار بہت سوں کا مرکز نگاہ ہوتا تھا اور اس کی شرکت کئی مشاعروں کی کامیابی کی سند قرار پاتی۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے Hall of Fame کے افتتاح کے موقع پر آواری ہوٹل اسلام آباد میں گزشتہ دنوں اختر شمار ایوب خاور نذیر قیصر مرزا حامد بیگ اور ناصر بشیر جیسے پیارے دوستوں کے ساتھ خوب ملاقاتیں رہیں۔ اختر شمار سے اس موقع پر بہت سی باتیں ہوئیں جس میں اس نے اپنی تشویشناک بیماری کا بھی سرسری تذکرہ کیا لیکن اس نے پوری جوانمردی کے ساتھ اس بیماری کا مقابلہ کیا اس موقع پر برادم خالد مسعود بھی ہمارے ساتھ موجود تھے اور تصاویر بھی بنوائیں نویں محرم جب غم حسین کے سوگوار لمحات میں ہم سب ڈوبے ہوئے تھے اختر شمار کی وفات کی خبر سننے کو ملی فون پر اختر شمار کے بیٹے احتشام سے بات ہوئی جس نے جنازے کے وقت سے مطلع کیا اور زیادہ سے زیادہ دوستوں تک یہ اطلاع پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا ادب لطیف کے ایڈیٹر اور برادر بزرگ مظہر سلیم مجوکہ نے بتایا کہ شہر سے دور ہونے کے باوجود اختر شمار کی رہائش گاہ پر ان کے دوستوں اور اھل قلم نے جنازے میں شرکت کی آج اختر شمار ہم میں نہیں ہے اور ہم اس کی یادوں کا ذکر کر رہے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ بس وہ یہیں کہیں ہمارے بیچ موجود ہے وہ ہماری باتیں سن رہا ہے کہ جانے والے ہمیشہ اپنی یادوں کے سہارے اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن