حمدالٰہی کا دریا
حمد الٰہی کا دریا جتنا بہائو بہتا چلائے گا ۔سید رضی مولف ایک طویل خطبہ کے بارے میں فرماتے ہیںکہ یہ خطبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بلندپایہ خطبوںمیں شمار ہوتاہے۔ اسے حضرت نے ایک سائل کے سوال کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا چونکہ اس میں ملائکہ اور مختلف قسم کے پیکروں کا ذکر ہے اس لئے اسے خطبہ اشباح کہا جاتاہے، مسجد کوفہ میںایک جمع غفیر کے سامنے اس خطبہ میں جناب امیرؓ نے حمدالٰہی کے دریا بہائے، زمین وآسمان کی خلقت اور پانی کی تقسیم اور عمل داری ملائکہ کی اقسام اور ان کے امور کی تفصیل، خلقت آدم کے رموزان کے بعد زمین پر حجت خدا کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کی تشریف آوری آقائے ختمی المرتبت کی رسالت کی حجت اور خاتمیت پر بات کی ہے، اس کے بعد آخر خطبہ میں حضرت نے انسانی فطرت کی رمز افشانیوں پر خدائی قدرت کے آثار کا عجیب نقشہ کھینچاہے، حضرت نے کلام کی فصاحت وبلاغت، ایجاز واطناب، فقرہ سازی اورمراد ومقصود کے تعین کی حسیاتی اور معروضی بساط کو تاحد امکان کھینچ دیاہے، یہاں ادب، تدین، توحیدرسالت اور تمجید وتشریف الٰہی کے مقاصد اور اہداف ایک نئی طرز میں کھل رہے ہیں تاکہ کلام کی بلاغت اورمراد تک قاری کی نظرمیں تسہیل پیدا ہوسکے۔ ہر دور میں وہ اللہ رب العزت اپنے برگزیردہ نبیوں اور رسالت کے امانتداروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی تجدید کرتا رہا، یہاں تک کہ ہمارے نبیﷺ کے ذریعہ وہ حجت پوری طرح تمام ہوگئی اور حجت پورا کرنا اور ڈرایا جانا اپنے نقطہ اختتام کو پہنچ گیا۔ اس نے روزیاں مقرر کررکھی ہیں، کسی کیلئے زیادہ اورکسی کیلئے کم اور اس کی تقسیم میں کہیں تنگی رکھی ہے اور کہیں فراخی اور یہ بالکل عدل کے مطابق تھا۔اس طرح کہ اس نے جس جس صورت سے چاہا امتحان لیا ہے، رزق کی آسانی یا دشواری کے ساتھ اور مال دار اور فقیر کے شکر اور صبرکوجانچا ہے پھر اس نے رزق کی فراخیوں کے ساتھ فقروفاقہ کے خطرے اور اس کی سلامتیوں میں نت نئی آفتوں کے دغدغے اور فراخی ووسعت کی شادمانیوں کے ساتھ غم وغصہ کے گلوگیر پھندے بھی لگارکھے ہیں، اس نے زندگی کی مختلف مدتیں مقرر کی ہیں، کسی کو زیادہ اور کسی کو کم، کسی کو آگے اور کسی کو پیچھے کردیاہے اور ان مدتوں کی رسیوں کی موت سے گرہ لگادی ہے اور وہ موت ان کو کھینچے لئے جاتی ہے اور ان کے مضبوط رشتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کئی دیتی ہے وہ بھید چھپانے والوں کی نیتوں، کھسرپھسر کرنے والوں کی سرگوشیوں، مظنون اور بے بنیاد خیالوں، دل میں جمے ہوئے یقینی ارادوں، پلکوں کے نیچے کنکھیوں کے اشاروں، دل کی تہوں اور غیب کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے اور ان آوازوں کا سننے والاہے جن کو کان لگاکر سننے کیلئے کانوں کے سوراخوں کو جھکنا پڑتاہے اور چیونٹیوں کے موسم گرما کے مسکنوں اور حشرات الارض کے موسم سرما بسرکرنے کے مقدموں سے آگاہ ہے اور پسر مردہ عورتوں کے درد بھرے نالوں کی گونج اور قدموں کی چاپ کا سننے والاہے اور سبزپتیوں کے غلافوں کے اندرونی خولوںمیں پھلوں کے نشودنما پانے کی جگہوں اور پہاڑوں کی کھوئوں اور ان کے نشیبوں کے وحشی جانوروں کی پناہ گاہوں اور درختوں کے تنوں اور ان کے چھلکوںمیں مچھروں کے سرچھپانے کے سوراخوں اور شاخوںمیں پتیوں کے پھوٹنے کی جگہوں اور صلب کی گزرگاہوں میں نطفوں کے ٹھکانوں اور زمین سے اٹھنے والے ابر کے لگوں اور آپس میں جڑے ہوئے بادلوں اور تہ بہ تہ جمے ہوئے ابروں سے ٹپکنے والے بارشوں کے قطروں سے باخبر ہے اور ریگ بیاباں کے ڈرے جنہیں باد بگولوں نے اپنے دامنوں سے اڑا دیاہے اور وہ نشانات جنہیں بارشوں کے سیلابوں نے رلا ڈالاہے اس کے علم میں ہیں اور ریت کے ٹیلوں پر زمین کے کیڑوں کے چلنے پھرنے اور سربلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر بال اوپر رکھنے والے طائروں کے نشیمنوں اور گھونسلوں کی آندھیاروںمیں چمچانے والے پرندوں کے نغموں کو جانتا ہے۔ ہر جاندار کا ٹھکانہ، ہر ذرے کا وژن اورہرجی دار کی سسکیوں کی آواز اور جوکچھ بھی اس زمین پر ہے سب اس کے علم میں ہے وہ درختوں کا پھل ہویا ٹوٹ کر گرنے والا پتہ، یا نطفے یا منجمد خون کا ٹھکانہ اور لوتھڑا یا اس کے بعد بننے والی مخلوق اور پیدا ہونے والا بچہ ان چیزوں کے جاننے میں اسے کلفت وتعب اٹھانا نہیں پڑی اور نہ اسے اپنی مخلوق کی حفاظت میں کوئی رکاوٹ درپیش ہوئی اور نہ اسے اپنے احکام کے چلانے اور مخلوق کا انتظام کرنے سے سستی اور تھکن لاحق ہوئی بلکہ اس کا علم تو ان چیزوں کے اندر تک اترا ہواہے اور ایک ایک چیز اس کے شمار میں ہے، اس کا عدل ہمہ گیر اور اس کا فضل سب کے شامل حال ہے اور اس کے ساتھ وہ اس کے شایان شان حق کی ادائیگی سے قاصرہیں۔