پرویز الٰہی کا عوام دوست فیصلہ
چند دن پہلے وزیر اعلی پنجاب جناب پرویز الٰہی نے ضلع گجرات کو ڈویژن بنانے کا حکم صادر کیا تو دنیا بھر میں بسنے والے گجراتیوں کو ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔جب کہ کچھ لوگوں نے اس پہ تنقید بھی کی ۔ یہ ایک حقیت ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کو جب جب اقتدار نصیب ہوا ہے آپ نے نہ صرف اپنے آبائی ضلع گجرات بلکہ ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں لوگوں کے لیے آسانیاں مہیا کرنے کی عملی کوششیں کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ عوامی مسائل کو بہتر طور پر جانتے ہیں اور عوام کی مشکلات کو ختم کرنے یا کم سے کم کرنے کے لیے نت نئے منصوبہ جات شروع کرواتے رہتے ہیں۔اپنے سابق دور میں جناب وزیر اعلی نے گورنمنٹ سکولوں میں مفت تعلیم اور درسی کتب مہیا کرنے کا سلسلہ شروع کروایا ۔آپ نے وقت کی ضرورت کے پیش ِ نظر اورپڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں دینے کے لیے ٹریفک وارڈنز بھرتی کیے اور سب سے اہم کا جو جناب پرویز الہی نے شروع کیا وہ تھا ریسکیو 1122۔یہ ایک ایسی خدمت ہے جس سے روزانہ سینکڑوں لوگوں کی مدد ہورہی ہے ۔شہر سے کچھ ہٹ کے بنائی گئی خوبصورت یونیورسٹی آف گجرات نہ صرف گجرات بلکہ گوجرانوالہ اور دیگر اضلاع کے نوجوانوں کی علمی پیاس بجھا رہی ہے۔گجرات کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔لیکن قیام پاکستان کے بعد سے ضلع گجرات نے پنکھا سازی،برتن سازی،سروس شوز اور دیگر صنعتی شعبوں میں خوب نام کمایا ہے اور ملکی معیشت میںاپنا بھر پور کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے ۔بہادروں،شہیدوں اور غازیوں کا مسکن گجرات صوبہ پنجاب کا اہم ترین شہر مانا جاتا ہے ۔ گجرات پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شمال میں واقع ہے، اس کے مشرق میں گرداسپور شمال مشرق میں جموں شمال میں بھمبر اور جہلم مغرب میں منڈی بہاؤالدین جنوب مغرب میں سرگودھا جنوب میں گوجرانوالہ اور جنوب مشرق میں سیالکوٹ واقع ہے۔ دو دریاوں جہلم اور چناب کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے گجرات کی زمین بہت زرخیز ہے، لوگ زیادہ تر گندم، گنے اور چاول کی فصل کاشت کرتے ہیں۔گجرات ایک قدیمی شہر ہے۔ برطانوی تاریخ دان جنرل کننگھم کے مطابق گجرات شہر 460 قبل مسیح میں گجر راجا بچن پال نے آباد کیا جبکہ شہر کے محکمانہ نظام کی بنیاد 1900ء میں برطانوی سامراج نے ڈالی، مغلیہ دور میں، مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا۔ جب مغل بادشاہ جہانگیر کا کشمیر سے واپسی پر انتقال ہوگیا تو ریاست کو بد امنی سے بچانے کے لیے اس کے درباریوں نے انتقال کی خبر کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اُس کے پیٹ کی انتڑیاں نکال کر گجرات میں ہی دفنا دی گئی۔پھر انگریزوں اور سکھوں کے درمیان دو بڑی لڑائیاں اسی ضلع میں لڑیں گئیں، جن میں چیلیانوالہ اور گجرات کی لڑائی شامل ہیں۔ اور گجرات کی لڑائی جیتنے کے فورا بعد انگریزوں نے تخت لاہور پر قبضہ کر تے ہوئے2 2فروری 1849ء کو پنجاب کی جیت کا اعلان کر دیا۔ایسی کئی تاریخی عمارتیں اور باقیات کھنڈروں کی شکل میں گجرات کے آس پاس موجود ہیں۔ گرینڈ ٹرنک روڈ جسے جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے، شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی جو گجرات کے پاس سے گزرتی ہے۔ گجرات کے زیادہ تر لوگ راجپوت(راجہ) گجر آرائیں مہر،جٹ، وڑائچ ہیں اورسادات کی بھی ایک کثیر تعداد اس ڈویژن میں آباد ہے۔ اپنی جوانمردی، بہادری اور شجاعت کی وجہ سے گجرات کے تین فوجی جوان راجہ عزیز بھٹی،میجر شبیر شریف شہید اور میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر حاصل کر چکے ہیں۔سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا تعلق بھی گجرات سے ہی ہے۔ گجرات کے نوجوانوں کی پہلی ترجیح فوج میں بھرتی ہو کے مادر وطن کی حفاظت کے لیے خدمات سرانجام دینا ہے اس کے بعد اس شہر کے نوجوانوں کی کثیر تعداد عرب ممالک اور یورپ میں محنت مزدوری کرکے ہر ماہ وطنِ عزیز کو قیمتی زرِمبادلہ کما کر بھیج رہے ہیں۔اب جبکہ گجرات کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا ہے تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی خواہش ہے ڈویژن کے آخری بڑے قصبہ کوٹلہ ارب علی خا ن کو بھی تحصیل بنا یا جائے،کوٹلہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ شہر گجرات سے بڑی کاروباری منڈی ہے ۔ایک بڑا ہسپتال،عدالتی نظام اور انتظامی مشینری سے کوٹلہ کے لوگوں کے بہت سے مسائل حل میں آسانیاں ہوسکتی ہیں۔اقتدار آنی جانی چیز ہے لیکن کسی بھی حکمران کے اچھے کام اسے ہمیشہ لوگوں کے دلو ںمیں زندہ رکھتے ہیں ۔میرے خیال میں پرویز الٰہی صاحب کو وزارت اعلی اسی لیے ملی ہے کہ وہ دوسروں سے ہٹ کے نچلی سطح کے عوامی مسائل کو بہتر طور پر حل کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔