یوم نیلا بٹ آزادی کشمیر کی للکار
آج 23 اگست کو یوم نیلہ بٹ منایا جائے گا
جویریہ بنت ربانی
javeriabani@gmail.com
آزاد جموں و کشمیر میں یوم نیلا بٹ ہر سال جوش و خروش اور اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ کشمیری عوام حق خود ارادیت کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصول کے تحت برہمن سامراج سے آزادی لے کر ہی دم لیں گے۔ اس سلسلے میںآج 23 اگست1947 کی یاد میں ہر سال کی طرح یہ دن روائتی جذے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان کی ہدایات پر یوم نیلہ بٹ پر پوری ریاست اورمظفر آباد سمیت تمام اضلاع میں اس دن کو منانے کے حوالے سے اجتماعات ،سیمنار اور تقریبات منعقد کی جارہی ہیں۔ 23 اگست 1947 وہ یاد گار دن ہے جب پیر سید شمشاد حسین شاہ کی زیر صدارت مسلم کمیونٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں نوجوان سردارعبدالقیوم ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے اپنی لازوال جدوجہدکے باعث بعدمیں مجاہد اول کا لقب پایا۔انہوں نے ڈوگرا راج کے خلاف بغاوت کا علان کر کے انگریزوں کو للکارا اوراسلامی نظام کے نفاذ کے ساتھ الحاق پاکستان کا اعلان کیا ۔جس پر انگریزوں کی طرف سے انہیں شدید مزاحمت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔مجاہد اول کی قیادت میں مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پید اہوا جس کے باعث بالآخرآزادکشمیرکا 32 ہزار مربع میل کا رقبہ آزاد کروالیا گیا۔شہدا کی عظیم قربانیوں کے باعث آج ہم آزاد کشمیر میں آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ مجاہد اول کی تحریک پر ہزاروں مسلمانوں نے باقاعدہ جدوجہد کی دشمن سے بے سروسامانی کی حالت میں جنگ کر کے خطہ آزاد کشمیر کو آزادی دلوائی اب اس دن کی مناسبت سے حکومت آزاد کشمیر نے 23 اگست 2022 کو آزاد کشمیر کے تمام 10 اضلاع میں بھرپور انداز میں دن منانے کا اعلان کیا ہے۔کشمیریوں کا پاکستان کے حق میں نعرے لگانا اپنے گھروں کی چھتوں پر پاکستان کے پرچم لہرانا۔اور ریلیاں اور احتجاجی مظاہروں کے دوران حب پاکستان میں گولیاں اور پیلٹ گنوں کا نشانہ بن کر اپنی آنکھوں کی بینائی کو ضائع کروا لینا الحاق پاکستان کا ثبوت ہے۔15 اگست جو کہ ظالم ملک بھارت کی آزادی کا دن تھا کشمیر کے سرینگر کے لال چوک میں خاموشی طاری رہی کیونکہ کشمیری اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔کشمیر میں تو یہ صورتحال ہے کہ کشمیری نوجوان اور بچے ان کو کچھ نہ ملے تو وہ پتھروں کے ساتھ ہی مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔بھارتی فوج کر بھی کیا سکتی ہے زیادہ سے زیادہ کا آپا آسیہ اندرابی کو گائے ذبح کرنے کے جرم میں گرفتار کر سکتی ہے۔ لیکن یہ ان کی پاکستان کی محبت اور الحاق کیلئے جد جہد کا ثبوت ہے۔
5 اگست 2019 سے لے کر اب تک ہزاروں کشمیریوں کے خلاف کالے قانون ’یو اے پی اے‘‘کے تحت مقدمہ درج کئے جا چکے ہیں۔بھارتی عدلیہ جموںوکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو حق خود ارادیت کی وکالت کرنے پر عمر قید کی سزا سناچکی ہے۔2022 کے پہلے چھ مہینوں میں بھارتی شہروں میں کشمیری طلبائ، مزدوروں، تاجروں اور ڈرائیوروں کو دھمکیاں دیے جانے، مار پیٹ، حملہ اور دھمکانے کے واقعات آئے روز سامنے آتے ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی فسطائی بھارتی حکومت کے غیر قانونی اقدامات جاری ہیں۔جس کے تسلسل میں مقبوضہ علاقے میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں نے کشمیریوں کو ان کے اپنے وطن میں اجنبی بنا دیا ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انٹرنیٹ کی بلا وجہ بندش اور پابندیاں واضح طور پر کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔رواں برس یکم جنوری سے 30 جون تک94مرتبہ انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی۔بھارتی فورسز 1990 سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں، بھارت میں ہندو انتہا پسندی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، آئے روز مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں غیر جانب دار اداروں اور میڈیا کا داخلہ بند کر رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج اور پولیس کے ہاتھوں قتل و غارت گری، ماورائے عدالت قتل، غیرقانونی حراست، تشدد، پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال، املاک کو نقصان پہنچانا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا معمول بن گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کو آج3سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر بھارت کا ظلم و جبرنہ رک سکا ۔انٹرنیت، موبائل فون اور دیگر زمینی مواصلاتی روابطے درہم برہم ہیںآخر کشمیری اور پاکستانی اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر کیوں نہ منائیں؟ بھارت نے پاکستان کی شہ رگ کو قیدی بنا رکھا ھے۔کشمیر مسلمانوں کو کھانا نہیں مل رہا۔کشمیری یوم سیاہ اس لیے مناتے ہیں کیونکہ بھارت نے ظلم وجبر کے ذریعے استصواب رائے کا حق چھین رکھا ہے۔ان ظالموں نے کشمیریوں کو ان کے آباواجداد کے ملک میں ہی قید کر دیا ہے۔قائداعظم کی کوششوں سے پاکستان معرض وجود میں آگیا جو کہ کانگرس اور گاندھی کی شکست تھی۔کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں کا راجا ہری سنگھ چند ٹکوں کے عوض کشمیر کو بیچ کر خود دہلی میں جا بیٹھا اور وادی پر بھارت کا جابرانہ اور غاصبانہ قبضہ ہو گیا۔ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود اسے پاکستان کے ساتھ الحاق کا حق نہ دیا گیا۔جب مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں گیا تو قرار دادیں منظور کر لی گئیں جن کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کروایا جانا باقی ہے جو آج تک نہ ہو سکا۔کیونکہ بھارت جانتا ہے اگر میں نے استصواب رائے کروا دی تو کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں گے۔اس لیے بھارت پر غاصبانہ قبضہ جاری رکھا۔ آج75سال کا عرصہ گزر گیا بہت سی بہنوں کی عزتیں پامال اورلاکھوں ماؤں کے سر کے ڈوپتے نوچ لئے گئے،لاکھوں بچوں کو یتیم ہو گئے اور اس وقت کشمیر کو 10 لاکھ کے لگ بھگ فوج کے ظلم و بربریت کے زیر تسلظ چلا آ رہا ہے ۔