جمہوریت بطور فرسٹ آرڈر
مسلمان اپنی اخلاقیات حضرت محمد ؐکی تعلیمات اور قرآن سے اخذ کرتے ہیں
پاکستان کی 75ویں سالگرہ اور جاری سیاسی ہلچل کے چلتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم ان تاریخی واقعات کا ازسرنو جائزہ لیں جن میں اس بات کی تفصیل دی گئی ہے کہ ہمارے ملک کی تشکیل کیوں ضروری تھی، اس کا مقصد عین کیا تھا اور اس وقت کے رہنماؤں کاتصور کیا تھا۔1930ء کے الہ آباد خطاب میں علامہ اقبال نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں اسلام ایک اہم عنصر ہے اور انہوں نے ان بنیادی جذبات اور وفاداریوں کو پیش کیا جو بتدریج بکھرے ہوئے افراد اور گروہوں کو متحد کرتے ہیں اور اپنے اخلاقی شعور کے مالک ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام ایک طرز زندگی ہے جس میں مسلمان امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ زندگی کو منظم کرنے اور مسلم نفسیات کے اندر ایک علیحدہ قوم کی شناخت بنانے کے اصول دیتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام مسلمانوں کو ایک علیحدہ شناخت فراہم کر کے انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے کیونکہ اسلام کے رسم و رواج اور روایات دوسرے مذاہب سے مختلف ہیں اور یہ عقیدہ حضور پاک ?کے اصولوں کی وحدانیت اور قبولیت پر زور دیتا ہے۔اس خطاب سے مراد شریعت ہے جسے عام طور پر ''اسلامی قانون'' کے نام سے جانتا ہے، لیکن ہمیں جو سمجھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ قوانین کے مجموعے سے کہیں زیادہ ہے۔شریعت ایک طرز زندگی کی وضاحت کرتی ہے، جس کا ذکر علامہ اقبال نے کیا ہے جہاں مسلمان اپنی سیاست اور ثقافت تخلیق کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے رہ سکتے ہیں۔یہ وہ ''ریاست مدینہ'' ہے جس کا تصور عمران خان پاکستان کیلئے کرتے ہیں تاکہ اس کو اصل بنیاد میں تبدیل کیا جائے۔
انیسویں صدی تک شریعت کو قانون سازی اور ذاتی حیثیت کی بنیاد کی بجائے معاشرے اور حکومت دونوں کو منظم کرنے والی اعلیٰ اخلاقی اور قانونی قوت کے طور پر قبول کیا جاتا تھا۔ قومی ریاست کی طرف سے اس کی جگہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرنے والوں کے لئے سمجھنا ضروری ہے جو برادری اور حکمرانی کے تمام پہلوؤں کے آپریشن کے لئے شریعت کے اصول پر عمل پیرا ہو اور اسے ''پہلے درجے کی جمہوریت'' پر تسلیم کیا جائے۔
شریعت بطور جمہوری ڈھانچہ خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ قوانین اخلاقیات سے اخذ کیے جائیں اور چونکہ مسلمان اپنی اخلاقیات حضرت محمد ؐکی تعلیمات اور قرآن سے اخذ کرتے ہیں اس لیے قوانین کو مسلم کمیونٹی کی اجتماعی اخلاقیات سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔شریعت کا نچوڑ ان تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک ہے جو اس پر حکومت کرتے ہیں، سب کو یکساں موقع فراہم کرتے ہیں اور ایسے ڈھانچے کا خاتمہ کرتے ہیں جو دولت کی عدم مساوات کی اجازت دیتے ہیں۔مسلم کمیونٹی کا بنیادی مرکز یہ نہیں تھا کہ آپ کتنے امیر ہیں یا آپ کی ملکیت کیا ہے؛ یہ ان اچھے کاموں کے بارے میں تھا جو آپ معاشرے میں انجام دیتے ہیں۔
ریاست مدینہ اس اصول پر ایک ایسے وقت میں بنائی گئی تھی جب بازنطینی اور فارسی سلطنتیں اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود تھیں لیکن ریاست مدینہ نے دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور جدید جمہوریت کی بنیاد رکھی۔شر یعت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہے اور اس کا مقصد ایک فلاحی ریاست بنانا ہے جس سے سب کو یکساں فائدہ پہنچے۔یہی وہ چیز ہے جو ریاست مدینہ کو دوسرے درجے کی جمہوریتوں سے برتر بناتی ہے اور اس کیلئے تمام پاکستانی شہریوں کو کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مغربی جمہوریتوں میں ریاست شہریوں کو مضبوط کرتی ہے۔
سترہویں صدی سے دنیا مرکزیت سے نکل کر انفرادی اخلاقیات کو اہمیت دیتی ہے اور اللہ کو اختیار کا مرکزی ذریعہ سمجھتا ہے۔مرکز پرستی کا تصور اللہ کی طرف حاکمیت کو منسوب کرتا ہے جبکہ زمین پر ایک منتخب نمائندہ لوگوں پر حکومت کرتا ہے۔ریاست مدینہ اس طرح کے تصور پر مبنی ہے جس میں لوگوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں اختیارات کا استعمال کرنے اور اپنے رہنماؤں کا احتساب کرنے کے لئے قرآن سے رہنمائی حاصل کی گئی ہیں۔قانون لوگوں سے بالاتر نہیں ہے۔ بلکہ عوام قانون کو اپنی اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد پر باقی تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔''ایکَ نعبد وایکَ نستعین '' اور ''لا الہ ا لا اللہ'' کہہ کر عمران خان کا وژن اس خیال کو بلند کرنا اور دوبارہ نافذ کرنا ہے کہ اللہ حتمی خود مختار ہے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو ریاست مدینہ کے تصور کے گرد مرکوز ہو، ہمیں اپنے اخلاق اور قوانین خود اللہ کے کلام سے اخذ کرنے چاہئیں۔ایسا کرکے ہم ایک ایسا معاشرہ حاصل کر سکتے ہیں جہاں تمام شہری امن اور ہم آہنگی کے ساتھ یکساں طور پر زندگی گزاریں۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،