• news

کراچی اور طوفانی بارشیں

ماحولیاتی اعتبار سے کراچی کی آب وہوا انتہائی خشک ہے البتہ سمندر سے قربت کی وجہ سے اس میں اعتدال پایا جاتا ہے ۔ جولائی اگست کے مہینوں میں مون سون کی وجہ سے بارشیں بھی ہو جاتی ہیں۔ اور کبھی دسمبر میں بحیرہ روم کی طرف سے آنےوالی ہواو¿ں کی وجہ سے بھی بارش ہونے کی وجہ سے موسم میں خنکی آتی ہے جس کے اثرات فروری تک رہتے ہیں۔ مارچ سے نومبر تک موسم گرم رہتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے ان سالوں میں کراچی کے مسائل مزید شدت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ڈیڑھ دو کروڑ کے شہر میں پانی کی دستیابی اور نکاسی آب کے مسائل کے حل کےلئے ماسٹر پلان کی ضرورت تھی لیکن ڈنگ ٹپاو¿ پالیسی کے تحت یہ مسائل بڑھتے ہی چلے گئے۔ گذشتہ سال ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی سربراہی کانفرنس میںتنبیہہ کرتے ہوئے تمام ممالک کو خصوصی اقدامات کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ کانفرنس میں ماہرین کی رائے کے مطابق شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ آمدہ برسوں میں موسم کی صورتحال یکسر تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی شدت سے بارشیں ہوں گی اور کبھی موسم انتہائی خشک اور گرم رہے گا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بالخصوص مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ جنوبی ایشیاءاور افریقہ کے کچھ ممالک کو انتہائی متاثر ممالک قرار دیا گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ماہرین کی وارننگ کو سنجیدگی سے لیا جاتا اور مناسب اقدامات کیے جاتے مگر ’ہنوز دلی دور است‘ کے مصداق ہم سوئے رہے۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا، اس سال موسم بہار ابھی ختم بھی نہ ہوا تھا، لوگ کسی رم جھم کے منتظر تھے کہ گرمی کی شدت نے زور پکڑا۔ ڈیموں میں پانی بھی ہری جھنڈی دکھا رہا تھا اور بارش کا کہیں دور دور شائبہ بھی نہ تھا۔ربیع کی فصل تو جیسے تیسے گزر گئی، خریف کی فصل کےلئے بھی پانی محال نظر آیا۔ شہروں میں بھی گرمی کی شدت نے ریکارڈ توڑے۔ پاکستان کے کئی شہر دنیا کے گرم ترین شہر بھی کہلائے گئے۔ لیکن کیا ہم اسے آفت خداوندی کہیں گے؟ نہیں! کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کی وارننگ تو ہمیں مسلسل کئی سالوں سے دی جا رہی تھی۔ بات کراچی کی ہو رہی تھی۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا شکار کراچی بھی بنا۔ مارچ سے پہلے ہی گرمی کی شدت نے کراچی کے شہریوں کو بے چین کر دیا۔ برسات کا موسم آیا تو بادلوں کی بارات دیکھتے ہی موسم سے بدحال شہریوں کے چہرے کھل اُٹھے لیکن یہ بارات تو طوفانی تھی۔ اس نے ہر گلی ہر محلہ ہر بازار میں اپنی حشر سامانیوں سے طوفان نوح کی یاد تازہ کر دی۔ میں پاکستان کے آبی ماہرین سے پوچھنے میں حق بجانب ہوں! کیا ان کے پاس اس باران رحمت سے فیض یاب ہونے کےلئے کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ کراچی میں بہنے والی ملیر ندی جسے ملیر دریا بھی کہا جاتا ہے، کئی ندیوں کو بوجھ لئے برسات کے موسم میں چلتا ہے۔ یہ قدرت کا انعام تھا جو صاف پانی کو سمندر تک پہنچانے کے علاوہ کراچی کے مکینوں کےلئے بھی فیض کا باعث بنتا تھا۔ پاکستان بنتے ہی کراچی کو جدید بندرگاہ اور عالمی شہر بنانے کےلئے تیزی سے اقدامات شروع ہو گئے تھے۔ 1957میںفیروز خان نون کی وزارتِ عظمیٰ میں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہر لحاظ سے پلاننگ کی گئی۔ ایوب خان کے حکم پر اسلام آباد کو وفاقی دارلحکومت دینے کے بعد کراچی کی حیثیت ثانوی رہ گئی۔کراچی میں بہنے والی ندیوں میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ تباہ کن بارشوں کا پانی بھی سمندر تک پہنچا سکیں مگر سیاسی آشیرباد کی وجہ سے ان ندیوں کے کنارے بڑی تعداد میں کچی بستیاں بنا کر انہیں ریگولائز بھی کر دیا گیا۔ ندیوں کی گزرگاہوں کو ازسرنو واگذار کروا کے تباہ کن بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ بلوچستان کی طرف سے بہہ کر آنےوالے پانی اور تعلقہ تھانہ بولا خان (ضلع جامشورو) کی پہاڑیوںکی طرف سے آنےوالے بارشی پانی کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ کوپن ہیگن میںکبھی بارشوں کی شدت سے سیلابی کیفیت پیدا ہوتی تھی اور پھر پانی کی دستیابی بھی مسئلہ بنتی تھی۔ انھوں نے بارشی پانی کو نہ صرف کنٹرول کیا بلکہ سمندر میں جھیل بنا کر اس پانی کو محفوط کرکے شہریوں اور زرعی مقاصد کےلئے استعمال کیا۔ آج کوپن ہیگن دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شامل ہے۔ پوری دنیا میں سیوریج اور ڈرینج کے پانیوں کو یکجا نہیں کیا جاتا۔ سیوریج کے نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال کر منعفت بخش بنایا جا سکتا ہے۔ کراچی میں ندیوں کی گزرگاہوں کو محفوظ کرکے صاف پانی کی گزرگاہ بنایا جا سکتا ہے۔ گورنگی سے ملحقہ سمندر میں قدرتی طور پر ایسی حالت ہے کہ وہاں بڑی جھیل بنائی جا سکتی ہے۔ جہاں نہ صرف بارشی پانی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے بلکہ سیلاب کے دنوں میں کوٹری سے نیچے بہہ کر آنےوالے وافر پانی کو بھی یہاں محفوظ کرکے کراچی کی دو کروڑ آبادی کےلئے پانی کی فراوانی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
یاد رکھیں! ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی ماہرین کی وارننگ کے نتائج نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں پچھلی دہائیوں کا گراف یکسر تبدیل کرکے رکھ دیںگی۔ اب وقت سوچ بچار کے بجائے عمل کا ہے۔ ان حالات میں ڈیموںکی تعمیر کے ساتھ مکمل ایکشن پلان بھی درکار ہے جس کے ذریعے ہم پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنا سکیں۔

ای پیپر-دی نیشن