پاک بھارت کرکٹ جنگ شروع ہونے کو ہے
مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو رہا ہے، ہاتھ ملائے جا رہے ہیں، کرکٹرز گلے مل رہے ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے کہ روایتی حریفوں کے کھلاڑی میچ کے علاوہ ایک دوسرے سے کس انداز میں بات چیت کر رہے ہیں، ویرات کوہلی بابر اعظم کے پاس آئے گرمجوشی سے ملے تو دنیا بھر میں اس مختصر ملاقات کو بہت وقت ملا، بات چیت ہوئی، اسی طرح افغانستان کے راشد خان حارث رؤف سے ملے، فخر زمان سے ملے اور پی ایس ایل کی یادوں کو تازہ کرتے رہے‘ پھر ویرات کوہلی ان فٹ فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی سے ملے ان کی خیریت دریافت کی تو دنیا بھر میں اسے بھی پذیرائی ملی، چاہال بھی شاہین آفریدی کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہے۔ یہ مناظر دنیا بھر میں کرکٹ کھیلنے، دیکھنے اور کھیل سے منسلک ہر شخص کے لیے بہت کشش رکھتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان کرکٹ ٹیم سارا سال میچز کھیلتی ہے لیکن جب کبھی پاکستان اور بھارت کے مابین میچز ہوں تو شائقین کی دلچسپی میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اتوار کی شام دونوں ٹیمیں دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں آمنے سامنے ہوں گی تو کروڑوں لوگوں کی نظریں ٹیلی ویژن سکرین پر ہوں گی۔ ہزاروں لوگ سٹیڈیم میں موجود ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے کھلاڑی اپنی اپنی ٹیم کی فتح کے لیے کوششیں کریں گے۔ اس کوشش میں شائقین کو مقابلے سے بھرپور کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ دونوں ٹیموں کو بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل ہیں۔ گذشتہ برس ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دی تھی اس کامیابی کی وجہ سے پاکستان میں جوش و خروش نسبتاً زیادہ ہے اور پاکستانی شائقین ایک مرتبہ پھر اپنی ٹیم سے ویسی ہی کارکردگی کی توقع کر رہے ہیں۔ بھارت کی ٹیم نے بھی ایشیا کپ میں آنے سے پہلے اچھی کرکٹ کھیلی ہے۔ ان کے مڈل آرڈر نے بہت اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہاردک پانڈیا کی ٹیم میں واپسی اور عمدہ کھیل سے بھارتی ٹیم کا توازن بہتر ہوا ہے پھر ریشاب پانٹ بھی بہت اچھا کھیل رہے ہیں۔ ٹاپ آرڈر میں بھارت کو دینا کے بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل ہیں۔
پاکستان کو شاہین آفریدی کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔ فاسٹ باؤلر کی عدم موجودگی جہاں پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث ہے وہیں بھارتی کرکٹرز نے سکون کا سانس لیا ہے۔ شاہین آفریدی اس وقت نئے گیند کے سب سے زیادہ خطرناک باؤلر تصور کیے جاتے ہیں۔ بہت کم عرصے میں انہوں نے مسلسل بہترین باؤلنگ سے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے گذشتہ برس ہونے والے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں انہوں نے میچ کے ابتدائی مراحل میں روہت شرما اور کے ایل راہول کی وکٹیں حاصل کر کے بھارتی بیٹنگ کی کمر توڑ دی تھی یہ وکٹیں گرنے کے بعد بھارت میچ میں واپس نہیں آ سکا۔ شاہین کی عدم موجودگی میں ہالینڈ کے خلاف نسیم شاہ نے اچھی باؤلنگ کی ہے لیکن دونوں مختلف باؤلرز ہیں۔ پاکستان بیٹنگ ٹاپ کی جان ٹاپ آرڈر میں ہے بالخصوص بابر اعظم، محمد رضوان اور فخر زمان سے بہت امیدیں ہیں۔ مڈل آرڈر میں اچھے کھلاڑی ضرور موجود ہیں لیکن آصف اور خوشدل کی کارکردگی عدم تسلسل کا شکار ہے۔ شاداب خان کی بیٹنگ بہتر ضرور ہو رہی ہے لیکن کوالٹی باؤلنگ اور غیر معمولی دباؤ والے میچز میں حالات مختلف ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے سابق کوچ اور لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ٹیسٹ فاسٹ باؤلر عاقب جاوید کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس شاہین آفریدی جیسا کوئی دوسرا باؤلر نہیں ہے۔ شاہین نے اپنی اہمیت منوائی ہے اور نئے گیند سے مخالف بیٹرز اس کے خلاف اپنی ٹانگیں اور وکٹیں بچانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ باؤلنگ کمپوزیشن بہتر دکھائی نہیں دے رہی، کھلاڑیوں کا استعمال بھی مناسب نہیں ہے پھر نمبر چار کے بعد ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ اب کون بیٹنگ کرے گا۔ غیر یقینی کی یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے پاس کھلاڑیوں کی کمی ہے۔ ان حالات میں شاہین کا باہر ہونا زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ نسیم شاہ اچھے باؤلر ہیں انہوں نے ہالینڈ میں اچھی گیند بازی بھی کی ہے۔ حارث رؤف کو نئے گیند کے بجائے بعد میں استعمال کرنا چاہیے وہ تیز ہے، ڈیتھ باؤلنگ زیادہ اچھی کر سکتا ہے۔ بھارت کی ٹیم زیادہ بہتر ہے، ان کا مڈل آرڈر ہاردک پانڈیا کی واپسی اور عمدہ کھیل سے مضبوط ہوا ہے، ریشاب پانٹ بھی اچھی بیٹنگ کر رہے ہیں، سپنرز اچھے ہیں، پلیئرز اپنے کردار سے بخوبی واقف ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ایشیا کپ میں سلیکٹرز کو صرف بھارت کے خلاف میچز کی فکر ہے اگر بھارت سے ہارے تو بہت تنقید ہو گی، ہماری خواہش ہے کہ پاکستان جیتے لیکن خامیوں کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے نہ خاموش رہا جا سکتا ہے۔ ہمارا مڈل آرڈر کمزور ہے، شعیب ملک کو ہونا چاہیے تھا بار بار شعیب ملک کی بات اس لیے ہوتی ہے کیونکہ متبادل تیار نہیں کیا گیا۔ گذشتہ چار برس میں کس انداز میں کھلاڑیوں کو مواقع دیے گئے اور کتنے مواقع دیے گئے یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ محمد یوسف باہر تھے تو بہت تنقید کرتے تھے اب بیٹنگ کے شعبے میں خامیاں کیوں دور نہیں ہو رہیں۔
سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ بھارت کو بھی جسپریت بھمرا کی خدمات حاصل نہیں وہاں کوئی شور نہیں ہے ہمارے ہاں آج بھی شاہین آفریدی کی عدم موجودگی پر بحث ہو رہی ہے۔ کھلاڑی ٹیم میں ہوتے ہیں اور کبھی وہ ٹیم کا حصہ نہیں بھی ہوتے معاملات ایسے ہی چلتے ہیں۔ کیا بھمرا کم باصلاحیت یا کم اہم ہیں ایسا بھی نہیں ہے درحقیقت وہاں کرکٹ کی سوچ ہم سے زیادہ پختہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ متبادل کھلاڑیوں کی موجودگی ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس شاہین آفریدی جیسا کوئی دوسرا گیند باز نہیں ہے ان جیسا فرق بھی کوئی دوسرا باؤلر پیدا نہیں کر سکتا لیکن اہم کھلاڑیوں کی عدم دستیابی کھیل کا حصہ ہے۔ نسیم شاہ بھی بہت اچھے ہیں یہ ان کے لیے موقع ہے کہ وہ فائدہ اٹھائیں بہترین گیند بازی کریں اور اپنی جگہ پکی کریں۔ نسیم شاہ ناصرف تیز گیند بازی کرتے ہیں بلکہ وہ ذہین بھی ہیں۔ محمد حسنین کو بھی صرف رفتار کی وجہ سے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے یقیناً سلیکشن کمیٹی نے ان کی ہنڈرڈ لیگ کھیلتے ہوئے کسی خاص کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا ہے۔ یہاں وہاب رہاض اور میر حمزہ کے نام پر بھی غور ہو سکتا تھا۔ بہرحال نسیم شاہ بھی اچھے ہیں ان سے اچھی توقعات ہیں۔ پاکستان ٹیم اچھے نتائج دے سکتی ہے۔ پاکستان کا ٹاپ آرڈر بہت اچھا کھیلتا آ رہا ہے۔ شاداب کو بھی بیٹنگ میں موقع مل رہا ہے پی ایس ایل میں بھی انہوں نے نمبر بدل کر بیٹنگ کی۔ اچھی کرکٹ ہو گی۔ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میں بھارت کا انداز بھی بدل رہا ہے۔ سینئر سپورٹس اینکر مرزا اقبال بیگ کہتے ہیں کہ بھارت کی نسبت پاکستان پر دباؤ زیادہ ہو گا۔ گذشتہ برس ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے بھارت کو باآسانی شکست دی تھی یہی وجہ ہے کہ شائقین کو پاکستان ٹیم سے زیادہ امیدیں ہیں۔ بھارت کی ٹیم بہتر تیاریوں کے ساتھ ایشیا کپ کھیلنے آئی ہے انہوں نے پاکستان کی نسبت زیادہ ٹونٹی ٹونٹی میچز بھی کھیلے ہیں اور مختلف کھلاڑیوں کو میدان میں اتار کر تجربات بھی کیے ہیں پھر تجربے میں بھی انہیں برتری حاصل ہے۔ شاہین آفریدی کی عدم موجودگی پاکستان کے لیے بڑا دھچکا ہے اور اب نظریں حارث رؤف پر ہوں گی۔ ہمارا مڈل آرڈر نسبتاً کمزور ہے لیکن ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے بھی پاکستان ٹیم حیران کن نتائج دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان نے بھارت کو ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھی شکست دی تھی جب کوئی توقع نہیں کر رہا تھا۔