سیلاب، ہمارے رویے اور اسکاﺅٹنگ
پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ سیکڑوں اموات کے علاوہ ہزاروں مکانات سیلاب برد ہوگئے۔ لاکھوں افراد بے یارو مددگار بغیر چھت کے کھلی جگہوں پر پڑے ہیں۔ لوگوں کا روزگار چھن گیا۔ یہ ایک بدترین آفت ہے جس سے حکومت، تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کو متحد ہو کر نپٹنا ہوگا۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی آفت سیلاب یا زلزلے کی صورت میں آتی ہے۔ سماجی اور مذہبی تنظیمیں اور ادارے میدان عمل میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور حکومت سے پہلے مخیر حضرات کے تعاون سے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ہی افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ناجائز منافع خور، ذخیرہ اندوز بھی اپنی پوری سفاکی کے ساتھ سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ہر وہ چیز جس کی متاثرین کو ضرورت ہوتی ہے اس کی قیمت کئی گنا بڑھا دی جاتی ہے۔ صرف خیمے کی بات کریں تو جو خیمہ چار ہزار روپے کا فروخت ہو رہا تھا سیلاب کے بعد اسکی قیمت چودہ پندرہ ہزار وصول کی جا رہی ہے۔ سبزیاں، دالیں، پھل اور دیگر اشیاءکے نرخ بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ سبزیوں پھلوں کے حوالے سے تو یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اور پل و سڑکیںٹوٹنے کی وجہ سے آمدورفت میں بھی رکاوٹیں ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن اس میں ناجائز منافع خوروں کا بھی عمل دخل ہے جو طلب بڑھنے پر پہلے اشیاءکو ذخیرہ کرکے قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہم لوگ جو ایسے موقعوں پر معمول سے زیادہ چیزیں خریدنا شروع کر دیتے ہیں اس سے بھی ناجائز منافع خوروں کو تقویت ملتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایسی اشیاءکا استعمال کم سے کم کر دیں۔ پیاز، ٹماٹر، لہسن، سبزی صرف ایک دو دن کی خریدیں۔ ٹماٹر کی جگہ دہی استعمال کر لیں۔ سبزیاں، پھل وغیرہ خراب ہونے والی چیزیں ہیں۔ چند دن بعد خراب ہو جاتی ہیں اگر ہم صرف ناگزیر ضرورت کیمطابق ہی خریدیں گے تو انکے نرخ کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح باقی چیزوں کے متبادل تلاش کریں۔ سبزیوں کے بجائے دالیں استعمال کریں گو کہ وہ بھی سستی نہیں رہیں۔ پاکستان میں یوں تو ہر سطح پر امدادی کیمپ لگا کر متاثرین سیلاب کیلئے ضرورت کی اشیا کے حصول اور تقسیم کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں افواج پاکستان، اخوت فاﺅنڈیشن، الخدمت فاو¿نڈیشن، تحریک لبیک پاکستان، محمدی میڈیکل ٹرسٹ، ہمت ٹرسٹ پاکستان، انجمن ہلال احمر اور دیگر ادارے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں بھی سیاست کے ساتھ اب میدان میں نکلی ہیں اور وزیراعظم شہباز شریف، وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور عمران خان کی اپیل پر اربوں روپے کی امداد کے اعلانات کیے گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تمام امداد متاثرین کی امداد و بحالی پر خرچ کی جائے۔ سندھ میںایک امدادی مرکز سے امدادی اشیا کسی وڈیرے کے ذاتی گودام میں منتقل کرنے، ایک سیاستدان کی طرف سے ووٹ دینے کے حلف کے عوض امداد دینے، کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔ ہمارے ہاں جسے عذاب کہا جاتا ہے ترقی ممالک میں اسے نااہلی (مس مینجمنٹ) کہا جاتا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے کالا باغ ڈیم بنا دیا ہوتا ہے تو اتنی تباہی نہ ہوتی۔ چند ارب روپے کالا باغ ڈیم اور دیگر ڈیموں پر خرچ کیے ہوتے تو آج ارب ہا روپے کا نقصان نہ ہوتا اور دنیا کے سامنے امداد کے لیے جھولی نہ پھیلانی پڑتی۔ اس بار سندھ اور نوشہرہ میں بھی نقصان ہوا ہے جس کے چند سیاستدان بیرونی فنڈنگ لےکر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے رہے۔ ڈیم وغیرہ ماہرین کی آراءکے مطابق بنائے جاتے ہیں سیاستدانوں کے بیانات کے مطابق نہیں۔امدادی کیمپوں میں اشیاءکے حصول اور متاثرین میں تقسیم کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کیمپوں میں ایسی اشیاءکے بھی ڈھیر لگ جاتے ہیں جن کی متاثرین کو ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں متاثرہ علاقوں کی انتظامیہ سے بھی رہنمائی لینی چاہیے۔ گزشتہ زلزلے اور سیلاب کے موقع پر بھی ایسا ہوتا رہا کہ امدادی سامان کے ٹرک راستے میں ہی متاثرین یا لٹیرے لوٹ لیتے تھے۔ اگر پاکستان میںبلدیاتی نظام ہوتا تو بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے بھی امداد کی تقسیم میں سہولت رہتی۔ میں نے سیلاب سے کچھ عرصہ پہلے اسکاﺅٹس اور گرل گائیڈز کے کردار کے حوالے سے ذکر کیا تھا۔ یہ ہماری ایک ایسی قوت ہے جسے ہم نے عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ چند سال سے اسکاﺅٹس کی عملی تربیت سے غفلت برتی جا رہی ہے حالانکہ پاکستان میں موجود کئی لاکھ بوائے اسکاﺅٹس اور گرل گائیڈز ایسے مواقع پر بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ پنجاب بوائے اسکاﺅٹس ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری رانا ارشاد صدیقی بلامعاوضہ اسکاﺅٹنگ کی بحالی اور ترقی کیلئے خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ ایسے بے لوث افراد کی خدمات سے حکومت کو استفادہ کرنا چاہیے۔