• news

قدرتی آفات سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

آزادی کے وقت دنیا کا بہترین نہری نظام پاکستان کے حصے میں آیا اور ریلوے کا بہترین نظام بھی پاکستان کو ملالیکن بدقسمتی سے ہم اس نظام کو اپ گریڈ کرناتودرکنا ہم مناسب انداز سے قومی اثاثوں اور املاک کوسنبھال بھی نہیں سکے ۔ اس طرح ہمارے سیاستدانوں نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے بڑے ڈیمز سمیت کالا باغ ڈیم کو متنازع بتا دیا۔ہم نے نئے ڈیم کیا بنانے تھے پانی محفوظ کرنے کیلئے چھوٹے ڈیم بھی نہیں بنا سکے۔ 1970ءکے بعد سے جوبھی اقتدارمیں آیا اس نے پاکستان کو کرپشن اور نا اہلی سے برباد کیا۔ آج بھی ارباب اقتدارواختیار صرف سیاسی دورے کررہے اور عوام کوبیوقوف بنانے کیلئے فوٹو سیشن ہورہا ہے۔ افسوس سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے دنیا کے دیگر ممالک میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کےلئے "ڈیم "بنائے گئے لیکن ہمارے ہاں عوام کو"ڈیم فول" بنایاگیا۔متمدن ملکوں میں دریاﺅں کے سیلابی راستوں میں آبادیاں قائم نہیں ہونے دیتے جبکہ ہم سیلابی راستوں پر شہربساتے چلے گئے ۔ ماسوائے ایوب خان کے دور میں منگلا ڈیم ، تربیلا ڈیم کے علاوہ کوئی قابل ذکر ڈیم نہیں بنایا۔ چین میں مجموعی طور پر 8ہزار ڈیم ہیں جن میں پانچ ہزار بڑے ڈیم ہیں۔ 15جولائی 2022ءمیں دو سال پہلے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اس کی تعمیر کا فیصلہ 52سال پہلے ہوا تھا۔ ہمیں پانچ دریاﺅں پر کم از کم 500سے زائد ڈیم بنانے چاہئیں جن سے ملک کے زر مبادلہ پر دباﺅ کم ہوگا۔ تیل یا کوئلے کی جگہ پانی سے بجلی پیدا کرنے سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت سے پیدا ہونے والے اثرات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔ اس کے فائدے دوہرے ہیں ایک تو ہمیں تیل درآمد نہیں کرنا پڑے گا اور دوسرا ہمارے ماحول پر منطقی طور پر اثر انداز بھی نہیں ہوسکے گا۔ اس سے جو بجلی پیدا ہوگی سستی اور وافر بھی ہوگی ہمارے ہاں ڈیم کی بجائے سیلابی پانی کو روکنے کے لئے بند بنائے جاتے ہیں ان میں سے ہرایک بند کی تعمیر و مرمت پر سالانہ اربوں روپے صرف کئے جاتے ہیںتاہم بڑے پیمانے پرہونیوالی خردبرد اور کرپشن کی وجہ سے تعمیر و مرمت خرد برد انتہائی ناقص ہوتی ہے جو سیلابوں کامقابلہ نہیں کرپاتے۔ افسوس 2010ءکے سیلاب سے ہماری سیاسی وانتظامی قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا،جس نے پورے پاکستان میں تباہی مچائی تھی۔ تمام صوبوں میں ریویو پروٹیکشن ایکٹ نافذ ہے جس کے تحت دریا سے 200فٹ کی حدود میں کسی قسم کی تعمیرات کی ہرگزاجازت نہیں ہے لیکن 200فٹ کیا 20فٹ کے اندر بھی کسی رکاوٹ کے بغیر محض امارت کے بل پر عمارت تعمیر کرلی جاتی ہے کیونکہ دریا کے کناروں پر کاروبار خوب چلتے ہیں ۔ مارکیٹ ہو، ہوٹل ہو یا کوئی ہاﺅسنگ سکیم جب اس کیلئے ریویو یا ریور سائیڈ لکھا جاتا ہے تو قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ حکومتی مشینری اپنی سرپرستی میں یہ ساری قانون شکنی کرواتی ہے۔ کالام ، سوات ، بدین ، بحرین اور دیگر علاقوں میں دریا کنارے قائم عمارتیں،ہوٹلز دریا کی طغیانی کی نذر ہوکر دریا برد ہوگئے ۔
اس وقت سیلاب نے چاروں صوبوں میں تباہی مچا رکھی ہے۔ دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں، متاثرین کے پیاروں کی قبروں کانام ونشان تک مٹ گیا۔ سیلاب سے اب تک 60لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ لاکھوں گھر تباہ ، لاکھوں مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے۔ کوہستان میں پانچ دوست سیلابی ریلے میں پانچ گھنٹے تک پھنسے رہے مقامی لوگ انہیں نکالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ کامیاب ہوسکے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو وائرل ہوئی جودیکھ کر ہرزندہ ضمیر انسان کادل خون کے آنسورویا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک منظم وموثر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کاادارہ نہیں بن سکا جو قدرتی آفات میں متاثرین کوریسکیو اوربندراستے بحال کرسکے ۔ پاکستان میں پندرہ سال پہلے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا جس کا کام قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا ہے۔ اس ادارے کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے کوئی جدید مشینری یا آلات نہیں ہیں اور نہ ہی اس ادارے کے پاس وسائل ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس ادارے کو ضروری وسائل اورمشینری مہیا کرے اورمصیبت زدگان کو بروقت امداد پہنچا سکے۔ صوبائی سطح پر بھی ڈایزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے لیکن ان کا بھی اللہ حافظ ہے۔ اگر ہم دریاﺅں کے راستے میں غیر قانونی تعمیرات نہ کریں اور بارشوں کے پانی کے سٹوریج کےلئے زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کریں جن میں یہ پانی سال بھر محفوظ رہے جو زراعت بجلی اور دیگر قومی مقاصد کیلئے کام آئے۔ دریاﺅں کے کناروں پر پختہ اورمعیاری بند بنائے جائیں ان مقامات سے یقینا قدرتی آفات کی شدت میں بڑی حد تک کمی آئیگی۔ اس موقع پر تمام سیاستدانوں کو اپنے سیاسی اختلاف کو فراموش کرتے ہوئے سیلاب زدگان کی بحالی وآباد کاری کیلئے متحدا ورپاک فوج کی طرح مستعد ہوناہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن