• news

وزیراعظم کی صارفین بجلی کیلئے خصوصی رعایت 

صد شکر کہ بعد از خرابی¿ بسیار ہی سہی‘ وزیراعظم نے بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں سے پریشان حال عوام کی اشک شوئی کا اہتمام کیا اور 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسلم لیگ نواز کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم شہبازشریف نے یہ اہم اعلان کیا۔ اس سے قبل 200 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین بجلی کیلئے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کئے گئے تھے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف نے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کی بھی منظوری دیدی۔ وزیراعظم نے شمسی توانائی منصوبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مہنگا تیل منگوا کر بجلی بنانے کے بجائے شمسی توانائی سے بجلی پیدا جائے۔ ذرائع پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی منصوبے کے تحت سولر پاور سے 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ 
 ہمارے ملک میں ایک عرصہ سے یہ افسوسناک روایت جڑ پکڑ گئی ہے کہ جب تک عوام الناس حکومتی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہوکر سڑکوں پر نہ آجائیں‘ ہڑتال اور مظاہرے‘ توڑپھوڑ نہ کریں۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ بجلی کے نرخوں میں تواتر کے ساتھ اضافے کے چرکے لگانے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر دو ہفتے کے بعد اضافہ کرنے کا نتیجہ منطقی طورپر عوام الناس کی طرف سے لفظی و زبانی احتجاج سے عملی احتجاج کی طرف جب منتقل ہو گیا،لوگوں نے واپڈا کے دفاتر کا گھیراﺅ کرکے وہاں توڑپھوڑ کی، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی‘ ٹائر جلائے اور ٹریفک بلاک کردی تو حکومت سے پہلے لاہور ہائیکورٹ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے بجلی کے بلوں میں شامل فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت تمام ٹیکسوں کو واپس لینے کے احکامات صادر کر دیے ۔ گویا حکومت نے عوام پر فیول ایڈجسٹمنٹ سرچاج کے نام پر جو ناروا ٹیکس عائد کر رکھا ہے اگر وزیر اعظم 300 یونٹ تک انہیں ختم کرنے کا اعلان نہ بھی کرتے تو انہیں ہائیکورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہ ٹیکس بلوں سے منہا کرنا ہی کرنا تھا۔ سو انہوں نے یہ ”کریڈٹ“ خود لینے کا فیصلہ کیا ہے جسے بہرحال درپیش حالات میں ایک دانشمندانہ فیصلہ ہی قرار دیا جائے گا کیونکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوںمیں اضافے نے تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو آسمان کی بلندیوں پر چڑھا دیا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ اس کیلئے اب زندگی میں کوئی کشش باقی نہیں رہی۔وہ بے بسی کے عالم میں امید بھری نظروں سے حکومت کی طرف دیکھ رہا ہے کہ کب اسے مہنگائی سے ریلیف ملتا ہے جس کا وعدہ حکومت کے ذمہ داران اپنی ہر تقریر ہر خطاب میں کرتے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ماہ اگست میں مہنگائی 27.26 فیصد کی سطح تک جا پہنچی اور ملک کا مہنگائی کے حوالے سے 49 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ سالانہ مہنگائی کی شرح 24.93 فیصد تھی جوکہ 14 سال کی بلند ترین سطح تھی جبکہ گزشتہ برس اگست میں مہنگائی 8.4 فیصد تھی۔ اگست کی 27.26 فیصد افراط زر ملکی تاریخ میں ریکارڈ کی گئی دوسری سب سے بلند ترین شرح ہے۔ اسی طرح اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے اور وہ 30 سے چالیس فیصد تک مہنگی ہو گئیں جن میں سبزیاں‘ پھل‘ دالیں وغیرہ شامل ہیں اور مہنگائی کی یہ شرح لا محالہ ایک سال میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 123.37 فیصد اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 84.21 فیصد اضافے کا ہی نتیجہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وزارت توانائی کی طرف سے بجلی کے بلوں میں سہ ماہی کے بعد جو فیول ایڈجسٹمنٹ، اس پر ایکسائز ڈیوٹی اور پھر اس پر مزید ٹیکس لاگو کئے جاتے ہیں۔ اس کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ لاہور ہائیکورٹ نے بھی صارفین سے ہونے والے اس ظلم اور زیادتی کے مترادف قرار دیکر اسے قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی بنا پربلوں سے نکالنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ 
حکومت نے شمسی توانائی سے بجلی بنانے کی منظوری بھی غیر معمولی تاخیر سے دی ہے۔ جب یہ حکومت برسراقتدار آئی تھی‘ اس کے ساتھ ہی ملک میں لوڈشیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ روزانہ گھنٹوں بجلی کی عدم دستیابی نے عوام کو جس طرح ذہنی کوفت اور اذیت میں مبتلا کر دیا‘ اس کا اندازہ اس عوامی رد عمل سے بخوبی لگایا جا رہا ہے جو حالیہ ضمنی انتخابات میں نتائج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ وزیراعظم کو جو بہترین منتظم ہونے کی شہرت رکھتے ہیں‘ سب سے پہلے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے ہونے والے عوام دشمن معاہدے پر نظرثانی کرنے اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے‘ لیکن اس جانب توجہ نہیں دی گئی جس کا خمیازہ اب حکومت کے ساتھ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
عوام حقیقی معنوں میں اس صورتحال سے عاجز آچکے ہیں۔ حکومت کے مشکل فیصلوں سے عوامی مشکلات میں بے پایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ حکومت سے یہ سننے کو تیار نہیں کہ یہ سب خرابی سابقہ حکمرانوں کی نااہلی‘ ناتجربہ کاری یا بدنیتی کا نتیجہ ہے۔ اب ملک پر درجن بھر سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔ تمام وسائل و اختیارات اس کے پاس ہیں۔ اب گناہ و ثواب کی ذمہ دار بھی اسی حکومت کو سمجھا جائے گا۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو اب اپنی مہارت‘ اپنی تجربہ کاری اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عوام میں اب مزید کوئی قربانی دینے کی ہمت نہیں رہی۔ ایک سال کے عرصہ کے بعد ملک میں نئے انتخابات منعقد ہونگے۔ ان سے پہلے حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں تشکیل دے اور ایسے اقدامات بروئے کار لائے کہ عوام کی مشکلات میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہو۔ عوام کو امور مملکت میں حصہ دار بنایا جائے اور مشکل ترین حالات میں بھی تدبر‘ حکمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالیہ سیلاب اور طوفانی بارشوں سے معیشت کو جو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچا ہے‘ اس کے ازالے کیلئے باہمی مشاورت کے ساتھ ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے کہ جس پر چل کر حکمرانوں اور عوام دونوں کو اطمینان اور سکون میسر آئے۔

ای پیپر-دی نیشن