• news

عمران خان کی نا اہلی کے امکانات

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے مزاج کے اعتبار سے جذباتی شخصیت ہیں۔ ان کے فالورز زیادہ تر نوجوان ہیں جو جذباتی اور ولولہ انگیز خطاب کو پسند کرتے ہیں۔جذبہ اور جنون عمران خان کے جلسوں کی نمایاں خوبی ہے جو دوسرے سیاست دانوں کے جلسوں میں نظر نہیں آتی ۔ پاکستان کے عوام روایتی طور پر دلیر اور بے باک لیڈروں کو پسند کرتے ہیں۔عمران خان نوجوانوں کو خوش اور متاثر کرنے کے لئے پرجوش تقریریں کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے جوش اور جنون میں اضافہ کرنے کے لیے عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو دھمکیاں دینے کے علاوہ ریاستی اداروں پر گرجنے اور برسنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جوش خطابت میں وہ کچھ ایسے جملے بھی کہہ جاتے ہیں جو ان کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ روایت رہی ہے مقبول عوامی لیڈر اپنے سامنے پرجوش کروائڈ کو دیکھ کر بہک جاتے ہیں اور جوش خطابت میں عدلیہ کے بارے میں بھی ایسے جملے کہہ دیتے ہیں جن کو دانش مندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
عمران خان اکثر اوقات اپنے دل کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اور ان کے دل میں جو آئے اسے برملا کہہ دیتے ہیں۔ ان کی تقاریر فی ا لبدیہہ ہوتی ہیں وہ تقریر کے لیے نوٹس تیار نہیں کرتے اور بات پہلے کہہ دیتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں حالانکہ انگریزی کا محاورہ ہے کہ بات کرنے سے پہلے سوچو۔عمران خان اکثر اوقات آئین اور قانون کی حدود پار کر جاتے ہیں۔انہوں نے 20 اگست کو اسلام آباد کی پبلک ریلی میں کسی ٹھوس جواز کے بغیر خاتون ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محترمہ زیبا چوہدری کے خلاف ان کا نام لے کر ایسے جملے کہہ دیے جو عدلیہ کی کھلی توہین کے زمرے میں آتے ہیں اور جن کو اعلیٰ عدلیہ کے لیے نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان اگر اپنے غیر موزوں اور غیر مناسب الفاظ واپس لے لیتے تو معاملہ ختم ہو جاتا مگر چونکہ آج کل وہ شہرت کے نشے میں مبتلا ہوچکے ہیں انہوں نے معذرت کرنے سے انکار کر دیا ۔راقم اپنی اس رائے پر قائم ہے کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس محترم ثاقب نثار کو جب اللہ تعالی نے پاکستان کا اہم ترین منصب عطا کرکے آئینی اختیار دیا تو انہوں نے یہ اختیار بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ اللہ کی رضا اور عوام کی فلاح کے لئے استعمال کیا اور پہلی بار مافیاز پر آہنی اور آئینی ہاتھ ڈالا۔ محترم جسٹس ثاقب نثار غریب عوام کے لئے عملی طور پر بابا رحما ثابت ہوئے۔ انہوں نے عمران خان کی درخواست پر ان سے ملاقات کر کے بڑا صائب مشورہ دیا کیا کہ وہ ایگو یعنی تکبر سے بچیں کیوں کہ تکبر انسان کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے اور اپنے متحمل مزاج سنجیدہ اور بردبار رفقاءسے مشاورت کیا کریں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان نے شہرت کے نشے میں بابا رحما کی دانشمندانہ رائے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے عدلیہ کے جج کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا سوو موٹو نوٹس لے لیااور عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محترم اطہر من اللہ نے اس ہائی پروفائل کیس کی سماعت کے لیے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا جس میں محترم جسٹس محسن اختر کیانی محترم جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب محترم جسٹس طارق محمود جہانگیری اور محترم جسٹس بابر ستار شامل ہیں۔عمران خان ہر چند کہ سیاست کے میدان میں 22 سال سرگرم کردار ادا کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی آئینی اور سیاسی بصیرت اور مہارت کو معیاری تسلیم نہیں کیا جاتا۔اسی لیے وہ عدلیہ کے سو موٹو نوٹس اور پانچ رکنی بینچ کی تشکیل کا درست ادراک نہ کر سکے ۔ انہوں نے عدلیہ کے نوٹس کے جواب میں جو موقف اختیار کیا اس نے عدلیہ کے ججوں کو حیران اور پریشان کر دیا ۔ عدلیہ کے ججوں کا خیال تھا کہ عمران خان عدلیہ سے غیر مشروط معاف معافی مانگ لیں گے اور پہلی پیشی پر ہی یہ مقدمہ نمٹا دیا جائے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محترم اطہر من اللہ اور بینچ میں شامل دوسرے محترم ججوں نے عمران خان کے سینئر اور نامور وکیل حامد خان کو باور کرایا کہ ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کی عزت اور وقار ہائی کورٹ کے جج سے کم نہیں اور ان کے کلائنٹ نے جو جواب داخل کرایا ہے وہ مایوس کن ہے۔ مقبول عوامی لیڈر جب کسی پبلک ریلی میں کسی جج کے بارے میں دھمکی آمیز سخت الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس سے نہ صرف عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ جس جج کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے گئے اس کے لیے بھی خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ کے ججوں نے حامد خان کو یہ باور بھی کرایا کہ ان کے کلائنٹ کو اس کیس کی نزاکت اور حساسیت کا اندازہ ہونا چاہیے۔ عدلیہ نے عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے ان کو ایک اور موقع دینا مناسب سمجھا ہے تاکہ وہ اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے اگلی پیشی پر غیر مشروط معافی مانگنے پر رضامند ہو جائیں اور یہ معاملہ آبرو مندانہ طریقے سے نمٹا دیا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ توہین عدالت کے سلسلے میں مسلم لیگ نون کے لیڈروں طارق عزیز، دانیال عزیز، طلال چوہدری اور نہال ہاشمی کو سزائیں دے چکی ہے اس لئے عدلیہ کبھی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ عمران خان کے سلسلے میں نرمی اور امتیازی سلوک کا مظاہرہ کرے۔ عمران خان کے ارد گرد جو مشیران ہیں ان میں بابر اعوان ایڈوکیٹ کے اور فواد چودھری کو عقاب قرار دیا جاتا ہے جبکہ اسد عمر شاہ محمود قریشی اور حامد خان امن کی فاختائیں ہیں اور اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ عمران خان کے دوست اور ہمدرد ان پر دباو¿ ڈال رہے ہیں کہ عدلیہ نے ان کو ایک اور موقع دے کر جو ریلیف دیا ہے اس کو غنیمت جان کر اپنے موقف پر نظر ثانی کریں اور عدلیہ کے ججوں کو مجبور نہ کریں کہ وہ ان کے خلاف ایسا فیصلہ دیں جس سے ان کا سیاسی مستقبل ہی خطرے میں پڑ جائے۔عمران خان اکثر اوقات یہ کہتے ہیں کہ عظیم لیڈر ہمیشہ یوٹرن لیتے ہیں اور جو یوٹرن نہ لے وہ عظیم لیڈر ہی نہیں ہو سکتا۔تحریک انصاف کے سنجیدہ لیڈر یہ توقع کر رہے ہیں کہ عمران خان اپنے اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے عدلیہ سے غیر مشروط معافی مانگنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور وہ اپنا پہلا جواب بھی واپس لے لیں گے ۔عمران خان کے اندرونی اور بیرونی مخالفین بڑے با اثر ہیں اور بےتابی کے ساتھ ایسے موقع کی تلاش میں ہیں کہ عدلیہ کے ذریعے انہیں سیاسی منظر سے ہٹا دیا جائے کیوں کہ وہ عمران خان کی معجزانہ مقبولیت کی بناءپر سیاسی میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم عوامی لیڈر اور تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے سیاسی منظرنامے سے ہٹایا جا سکتا ہے تو ان کو بھی ہٹایا جا سکتا ہے۔ان کے پاس واحد آپشن یہ ہے کہ وہ عدلیہ سے غیر مشروط معافی مانگ لیں۔ اس فیصلے سے عوام کی نظر میں ان کے وقار میں اضافہ ہو گا۔عمران خان کے مطابق ان کے خلاف ہونے والی سازش کا سلسلہ ابھی جاری ہے اگر ان کا یہ موقف درست ہے تو عین ممکن ہے کہ ان کے قریبی رفقاءمیں ایسے افراد شامل ہوں جو ان کے خلاف سازش کے آلہ کار بن چکے ہوں اور ان کو عدلیہ کے خلاف بھڑکا رہے ہوں۔عمران خان کا سیاسی مستقبل ان کے اپنے ہاتھ میں ہے کیوں کہ توہین عدالت کے سلسلے میں آخری فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن