قومی معیشت اور کالاباغ ڈیم
1929ءمیں دریائے سندھ کے سیلاب کو ایشیاءکا سب سے بڑا سیلاب کہا جاتا ہے جس کی رپورٹنگ عالمی میڈیا نے بھی کی تھی۔ سندھ میں آنے والے سیلابوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے صاف پانی کے منبع ہمالیہ کے گلیشیئرز سے بہہ کر آنے والے اس دریا میں طغیانی کا سبب موسم گرما میں ہونے والی تیزوتند بارشوں یا کسی گلیشیئر کے پھٹنے کی وجہ ہوتا ہے۔ 1929ءمیں بھی یہی ہوا تھا کہ ہمالیہ کی گود میں ایک چھوٹے سائز کا گلیشیئر گرمی اور بارشوں کے زور پر پھٹا اور یکلخت دریائے سندھ میں پانی کا بہاو¿ انتہائی تیز ہو گیا۔ دریائے سندھ کے کنارے چھلک پڑے اور گردونواح کی بستیوں شہروں کو بھی ڈبوتا چلا گیا۔ پہاڑوں سے کچھ نیچے آتے ہوئے بھی اس کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ کابل دریا کی روانی کو بھی روک دیا جس کے نتیجہ میں دریائے کابل نے اپنے راستہ میں آنے والے شہروں میں تباہی مچا دی۔ نوشہرہ شہر میں معلوم تاریخ کا بڑا سیلاب آیا تھا۔ اس کے گلی محلوں میں کشتیاں ہی نہ چلیں بلکہ دریا کے نزدیکی بستیوں میں مکانوں کے چھتوں کے اوپر سے بھی پانی گزر گیا۔ حقیقت سے ناآشنا لوگ سمجھتے ہیں کہ 1929 میں آنے والا سندھ دریا کا سب سے بڑا سیلاب تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر 1929 میں تربیلا ڈیم بنا ہوتا تو دریا میں اس قدر طغیانی نہیں آتی۔ اس سیلابی ریلے کو تربیلا کی جھیل بآسانی سمو لیتی اور مخلوقِ خدا کو سیلاب کی آفت سے بچا لیتی۔قارئین کو ایک بات بتاتا چلوں کہ 1929 میں موسم خریف میں دریائے سندھ میں 62.45 MAF پانی آیا تھا جس کے دوران گلیشیئر ٹوٹنے کی وجہ سے سیلابی ریلے نے تباہی مچا دی تھی۔
1975 میں تربیلا ڈیم مکمل ہو چکا تھا۔ اس کی تعمیر کے دوران 73ءمیں بھی شدید سیلاب آیا تھا جس نے بڑی تباہی مچائی تھی۔ پوری دنیا نے اس سیلاب کی شدت کو دیکھتے ہوئے دل کھول کر متاثرین کی امداد کےلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سعودی عرب اور لیبیا کے فرمانرواو¿ں نے انتہائی خطیر رقم پاکستان کو فراہم کی تھی۔ اس سال موسم برسات میں سندھ دریا میں 95MAFکا پانی گزرا تھا۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان مخالفین نے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے راستے میں اپنی منافقانہ باتوں سے مخلص قوم کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد 1978، 88،90،91، 92،94،98 اور اس صدی میں 2010،13،14 اور 2015 میں بھی دریائے سندھ میں شدید سیلاب آئے تھے۔ خریف کے موسم میں دریائے سندھ سے ان سالوں میں تقریباً ایک سو ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال گزرا لیکن سیلابی پانی کی اس شدت کے باوجود قوم سیلابوں سے تو آشنا ہوئی لیکن سادہ لوح عوام کو کوئی یہ نہ بتا سکا کہ ان سالوں میں سیلابوں کی شدت کے اثرات کو بڑی حد تک تربیلا ڈیم کی دیوار نے روک دیا تھا۔ 2014 میں ہنزہ کی وادی (عطاآباد)میں بھی ایک بڑا گلیشیئر ٹوٹا تھا جس کی وجہ سے سیلاب کی شدت کنٹرول سے باہر ہوئی تھی، اگر تربیلا ڈیم نہ بنا ہوتا تو 1929 کی طرح ایک بار پھر نوشہرہ شدید سیلاب کا مزہ چکھتا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عالمی ماہرین گذشتہ پانچ سالوں سے دنیا کو خبردار کر رہے ہیں۔ دنیا کے 17 ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے مسلسل وارننگ دے رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس فہرست میں افریقہ کے صحرائے اعظم نے نائیجر، الجزائر، سوڈان اور مصر جیسے ممالک نہیں کیونکہ انھوں نے پانی کی اہمیت کو سمجھا اور جہاں بھی موقع نظر آیا، بہتے ہوئے پانی کے ایک ایک قطرے کو حفاظت میں لے لیا۔ دریائے نیل پر پانی کا سالانہ بہاو¿ 49 MAF ہے مگر مصر نے 130 MAF کا اسوان ڈیم بنایا تاکہ شدید سیلابوں کے پانی کو بھی کنٹرول کرکے دیگر خشک سالوں میں کام میں لایا جا سکے مگر افسوس ہوتا ہے پاکستان کے بزرجمہر قائدین پر کہ پاکستان وہ خطہ ہے جو دنیا کے سب سے بڑے صاف پانی کے منبع کوہ ہمالیہ کے دامن میں ہے اور دنیا کا سب سے بڑا دریائی نظام کا مالک ہے مگر ہم اپنے پانیوں کی حفاظت کرنا تو درکنار‘اپنی کوتاہیوں اور نالائقیوں سے اپنے گھر کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔وفاقی وزیر آبی وسائل محترم خورشید شاہ نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور سیلاب کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے 15اگست کو قومی اسمبلی کے کمیٹی روم میں Impact of Climate Change on Irrigated Agriculture پر کانفرنس بلائی۔ سندھ طاس واٹر کونسل پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے راقم بھی اس میں شریک تھا۔ ذرائع آب کی صورتحال بتاتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری آبی وسائل و کمشنر واٹر کمیشن پاکستان نے ڈیموں کی کمی کا ذکر کیا تو محترمہ شیریں رحمان نے بڑے ڈیموں کے بجائے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب پوری دنیا میں بڑے ڈیم کہیں نہیں بن رہے۔ ان کی بات سن کر اچنبھہ ہوا کہ دنیا کے تمام ترقیائی ممالک بلکہ درمیانے وسائل والے ممالک نے بھی اپنے تمام بڑے ڈیم تعمیر کر لئے ہیں۔ اب کسی ترقی یافتہ ملک میں بڑے کیا درمیانے سائز کے ڈیم کی تعمیر کےلئے کوئی سائٹ نہیں بچی۔ اب تمام ترقی یافتہ ممالک مائیکروپراسیسنگ سطح پر پانی کے استعمال ہونیوالے ہر قطرے کو بھی قابل استعمال بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ قارئین کےلئے بتاتا چلوں کہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کو ری پراسیس کرنے کےلئے کئی بلین ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہم ہر سال اوسطاً 30 MAF سے زائد پانی سمندر میں بہا دیتے ہیں۔ میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ بڑے ڈیموں کی تعمیر میں خاصا وقت لگتا ہے۔ چھوٹے ڈیم بآسانی سال چھ ماہ میں بن سکتے ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ دریائے سندھ پر چھوٹے ڈیم کہاں بنیں گے؟ ڈیموں کی تعمیر کیلئے فزیبیلیٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دریائے سندھ پر کونسی سائٹ ہے جہاں چھوٹے ڈیم بن سکیں؟ اور اگر دیگر جگہوں پر ایک ہزار چھوٹے ڈیم بھی بنا لیں تو محترمہ شیریں رحمان صاحبہ کےلئے عرض ہے کہ ان ایک ہزار ڈیموں سے ایک فٹ تو کیا کسی صوبے کے پانی میں ایک انچ کا اضافہ بھی نہ ہوگا۔ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دریائے سندھ پر سیلاب کا شدید دباو¿ کہاں ہے۔ تمام ماہرین اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ تربیلا سے نیچے سیلابی پانی کا دباو¿ ہے۔ اسے کنٹرول کرنے والا واحد مقام کالاباغ ہے جہاں ڈیم بنا کر نہ صرف سیلابی پانی کو روکا جا سکتا ہے بلکہ یہ واحد مقام ہے جہاں سے تمام سیلابی پانی کا رخ موڑ کر ملک کے تھر اور چولستان جیسے علاقوں کو بھی سیراب کیا جا سکتا ہے جہاں ہر دوسرے سال قحط کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کو بھوک سے موت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کسی بھی پلاننگ سے پہلے ہمیں اپنے قومی مفاد کو سوچنا چاہیے۔ ہم ہر سال اوسطاً 30 MAF پانی ضائع کر دیتے ہیں جس کی معاشی قیمت سالانہ 60 ارب ڈالر بنتی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کیا ہم محب وطن ہیں کہ ہر سال 60 ارب ڈالر کی معاشی قوت پیدا کرنے والا پانی ضائع کر دیتے ہیں اور ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کےلئے غیروں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔