• news

ڈوبتے کوتنکے کاسہارا 


 عمران خان نے ٹیلی تھون فنڈ ریزنگ کے ذریعہ ایک بار پھر سیلاب متاثرین کے لئے آواز اٹھا کر عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے اس امر کابھی اظہارکیاکہ جب جب متاثرین کو مدد کی ضرورت پڑے گی ہم ان کےساتھ کھڑے ہیں فنڈ ریزنگ پرلوگ عمران خان کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے اور دھڑادھڑ پیسے بھیجنے کے سلسلے کا آغاز ہوا ۔ اس معاملے میں کپتان کوپوری قوم کااعتماد حاصل ہے ہرکسی نے اپنی استطاعت کے مطابق عطیات دئیے۔ اس موقع پر سیلاب متاثرین ریلیف فنڈ کی سربراہ ثانیہ نشتر نے کہاکہ اس سے قبل کسی بھی دور میں جب ایسی صورتحال ہوتی تھی عوام تک براہ راست پیسہ نہیں پہنچتاتھا لیکن اس مرتبہ ہم نے وہ میکنزم تشکیل دیاہے کہ ایک ایک روپیہ حقدارتک پہنچے گا ملک میں سیلابی صورتحال نے جہاں کئی بستیاں اورگھراجاڑ کررکھ دئیے وہاں طوفانی بارشیں اور ریلے خوف کی علامت بن گئے پورے پاکستان میں ان سیلابی ریلوں نے بربادی کے اس سلسلے کاآغاز کردیا جو اب تک تھمنے کانام نہیں لے رہا اور صورتحال یہ ہے کہ خیمے اور ادویات کی قلت کے علاوہ کھانے پینے کاسامان بھی ان علاقوں تک پہنچانا مشکل ہے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔ سندھ کی سیلابی صورتحال کو دیکھیں تو تقریبا ہزاروں مکانات کو نقصان پہنچا اور تین سوچالیس اموات ہوچکی ہیں لاکھوں آشیانے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ نوشہرہ میں دریاے کابل کابہاو¿ درجنوں دیہاتوں کو بہا کر لے گیا ۔ مانسہرہ ایبٹ آباد میں منہ زورریلے خوف کی علامت بن گئے ۔ سوات میں دل دہلا دینے والے مناظر نے خوف وہراس پھیلایا پچاس ہوٹل بہہ گئے ۔ کوہ سلیمان کے دریاو¿ں سے مرنے والوں کی تعداد دوسوچھیالیس ہوگئی۔ بلوچستان میں سیلابی تباہیاں سیاست کی نذر ہوگئیں گھروں میں پانی اترنے سے نظام زندگی مفلوج ہوکررہ گیا ۔ ہزاروں کلومیٹر سڑکیں اور پل تبا ہوئے۔ امدادی سامان کے منتظر لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پرمجبور ہیں کھڑی فصلیں اور گلی محلے تباہ وبرباد اور امدادی کاروائیاں تعطل کا شکار ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر نقصانات کاذمے دار کون ہے اورہم کونسا میکنزم بناسکتے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کوروکا جائے اور انسانی اموات کے ضیاع کوروکا جاسکے ۔اسکا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ہمارا سارا وقت سیاست کی نذرہوجاتا ہے ہم اپنی نالائقیوں اور کوتاہ اندیشی کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں جیسے مسائل کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اور اس مسئلے کو وقت آنے پر چھوڑ دیا جاتا اور عدم انتظام اور عدم دلچسپی کے باعث ہرسال جب یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے توہمارے پاس خیموں ،ادویات اوربنیادی ضروریات کا فقدان ہوتا ہے اورنہ ہی وہ ذرائع کہ ہم متاثرین کے پاس سامان خوراک پہنچاسکیں اس وقت ہمیں ان مصائب اور مشکلات کا سامنا ہے امدادی ایجنسیز دوردراز تک نہیں پہنچ پارہیں بچے فاقوں سے مررہے ہیں۔ حکومتی اقدامات میں سیلاب اور طوفانی بارشوں کے خطرے کے پیش نظر پیشگی اطلاع لوگوں کا ان علاقوں سے انخلا اور متاثرین کی بروقت امداد ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا اور حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں 2010 ءکے بعد یہ بہت بڑا سیلاب ہے جس نے معاشرتی زندگی کے نظام کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور لوگ اپنے عزیزوں کو اپنی نظر کے سامنے ڈوبتا دیکھ کر بھی بے بس ہیں۔ اس پر المیہ یہ کہ ان متاثرین کے لئیے اٹھائی جانے والی آوازیں بھی سیاست کی نذر ہونے لگتی ہیں۔ قوم پر مصائب کاوقت درحقیقت وقت کی پکار ہے کہ ہمارے مسائی کا حل اتحاد میں ہے قدیم زمانے کی دوریاستیں ایتھنز اور اسپارٹا آپس میں برسرپیکار رہتی تھیں لیکن جب ان ریاستوں کو مصائب گھیر لیتے توباہمی اتحاد سے اسکامقابلہ کرتیں ۔ اس دور کاایک مورخ اسی اتحاد کی وجہ سے اس دور کو جمہوریت کانقطہ آغاز قرار دیتا ہے۔ ٹیلی تھون کے زریعے فنڈ ریزنگ درحقیقت ڈوبتے کو تنکے کا وہ سہارا ہے جس کے تحت متاثرین کو خیموں، ادویات اور سامان ضرورت کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن