” تضادات “
زیر ِ تبصرہ کتاب ملک کے ترقی پسند ادیب و دانش ور ، استاد اور نقاد پروفیسر رشید مصباح کے مضامین کا مجموعہ ہے جو ان کی وفات کے بعد منظر ِ عام پر آیا ہے۔رشید مصباح کا نظریہ یہ ہے کہ یہ کائنات تضادات کے اصول پر کھڑی ہے ۔یہ تضادات خیروشر کا تضاد، ملکیت او رمحنت کا تضاد ، منفی اور مثبت کا تضاد، ظالم اور مظلوم کا تضاد ، حاصل اور محروم کا تضاد کی صورت میں موجود ہیں ۔گویا قانون ِ وحدت ِ اضداد ہی کائنات کی دائمی حقیقت ہے۔جس نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہ کتاب انہی تضادات کو اجاگر کرتی ہے۔ رشید مصباح کے الفاظ میں ”یہ کتاب ان ادبی مضامین کا مجموعہ ہے جو 90,80,70 اور نئی صدی کی پہلی دہائی میں لکھے گئے ۔ جن میں بہت سے مختلف رسائل میں شائع ہوچکے ہیں ، چند ایک مختلف کتا بوں کے دیباچہ کی حیثیت سے شائع ہو چکے ہیں اور کچھ تنقیدی نشستوں اور کتابوں کی تقریب رونمائی کے مواقع پر پڑھے گئے ۔ کچھ مضامین فکری نکات پر اپنا موقف زیر بحث لانے کے لیے تحریر کیے گئے ہیں۔ کچھ کتابوں کا محاکمہ کرنے کے لیے لکھے گئے اور ادبی شخصیتوں کے لیے قلم برداشتہ ہو ئے ۔ ان تمام مضامین میں آپ کو بہت سے رنگ نظر آئیں گے لیکن ان سب کا مرکزی نقطہ ترقی پسندی ہے ۔ میرے نزدیک ترقی پسند ادب ہی واحد وسیلہ ہے جس کے ذریعے نئی نسل کی ذہنی کیفیت کو تبدیل کرنے کا کام لیا جا سکتاہے“ ۔کتاب کی اہمیت کا اندازہ ان موضوعات سے ہی لگایا جاسکتاہے جن کو بنیاد بنا کر مضامین تحریر کیے گئے ہیں ۔مثلاً ” گلوبلائزیشن ، ترقی پسندادب اور پاکستان“ ، ”ترقی پسند ادب کے سماجی اثرات“۔ ”جنگ آزادی 1857ءکے ادب پراثرات“۔”پاکستانی عورت اور ادب“ ،” 1970ءکے بعد نئے ادبی زاویئے “،” ساحر لدھیانوی فن اور شخصیت “،” بکھرے ہوئے آدمی کی اکائی“ ، ”معاشرے کی بقاءکا راز ہماری موت میں ہے“ ، ” ریاض مجید میرا دوست ، میرا دشمن “ وغیرہ ۔ رشید مصباح ایک بے باک قلم کار ، بے رحم اورسفاک نقاد تھے ۔ انہوں نے جسے جیسا سمجھا ویسے ہی بیان کردیا ۔ ان میں اپنے موقف پر ڈٹ جانے اور اپنا نقطہ نظر ببانگ ِ دہل بیان کرنے کا حوصلہ تھا اور وہ اس حوالے سے نہ تو کسی سے مرعوب ہوتے تھے اور نہ ہی معذرت خواہانہ رویہ اخیتار کرتے تھے ۔اپنے نظریے سے پختہ وابستگی ان کا طرہ ءامتیاز تھا ۔ انہوں نے اپنے بے لچک رویے کی بنا پر جتنے دوست بنائے اتنے دشمن بھی پیدا کر لیے تھے۔ لیکن انہیں اس کی پروا نہیں تھی ۔ وہ آخری وقت تک اپنے متعین کردہ راستے پر چلتے رہے ۔ انصاف اور مساوات پر مبنی ایک ترقی پسند اور روشن خیا ل سماج ان کا آدرش تھا اور وہ اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے ساری عمر جدوجہد کرتے رہے ۔وہ انجمن ترقی پسند مصنفین ، حلقہ ارباب ِ ذوق اور دیگر ادبی مجالس میں دوران ِ گفتگو نئے نئے نکات اٹھاتے ، نئے نئے سوالات اچھالتے اور نئے نئے زاویئے تراشتے اور حاضرین اور اہل علم کو ان پر غوروفکر کی دعوت دیتے اور اس طرح ایک مثبت بحث کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کے افسانہ نگار د و ستوں عبدالوحید ، خالد فتح محمد اور عامر فراز نے زیر نظر مجموعہ ءمضامین شائع کر کے ایک علم دوست شخصیت کے خیالات عام قاری تک پہنچانے کی سعی ¿ مشکور کی ہے جو لائق ِ تحسین ہے ۔ کتاب 196 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 700 روپے ہے ۔ اس کا ٹائٹل معروف مصور ریاظ کے موئے قلم کا شاہکار ہے اور اسے ادارہ عکس پبلی کیشنز ، ٹیمپل روڈ لاہور نے شائع کیاہے ۔( تبصرہ نگا ر ۔ ایس اے خان )